India-Middle East-Europe mega economic corridor: What is the project and why is it being proposed?تصویر سوشل میڈیا

نئی دہلی،(اے یو ایس)انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے سنیچر کو جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران امریکہ، سعودی عرب اور یورپی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ دلی میں ’انڈیا-مشرق وسطی- یورپ اکنامک کوریڈور‘ کا اعلان کیا جسے انڈیا سمیت دنیا بھر کے رہنما ایک تاریخی معاہدہ قرار دے رہے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اسے ایک ایسا معاہدہ قرار دیا ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں خوشحالی آئے گی۔انھوں نے کہا کہ ’یہ اپنے آپ میں ایک بڑی ڈیل ہے جو دو براعظموں کی بندرگاہوں کو جوڑنے سے مشرق وسطیٰ میں زیادہ خوشحالی، استحکام اور ہم آہنگی لائے گی۔‘یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان دیر لیین نے کہا کہ ’یہ اب تک کا سب سے سیدھا راستہ ہوگا جس سے تجارت میں تیزی آئے گی۔‘اس پراجیکٹ کا مقصد انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کو ریل اور بندرگاہوں کے نیٹ ورک کے ذریعے جوڑنا ہے۔اس منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ میں واقع ممالک کو ریل نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جائے گا جس کے بعد وہ سمندری راستے سے انڈیا سے منسلک ہوں گے۔ اس کے بعد اس نیٹ ورک کو یورپ سے جوڑا جائے گا۔

امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس منصوبے کی اہمیت بتانے کی کوشش کی۔انھوں نے کہا: ’یہ صرف ایک ریل منصوبہ نہیں ہے۔ یہ ایک شپنگ اور ریل منصوبہ ہے۔ لوگوں کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ منصوبہ کتنا مہنگا، حوصلہ مندانہ اور بے مثال ہوگا۔‘انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’اس معاہدے سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ اس سے مشرق وسطیٰ کو عالمی تجارت میں اہم کردار ادا کرنے میں مدد ملے گی۔‘انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک کے درمیان یہ معاہدہ بنیادی طور پر ایک انفراسٹرکچر پراجیکٹ ہے۔اس کے تحت بندرگاہوں سے لے کر ریل نیٹ ورک تک سب کچھ تعمیر کیا جانا ہے۔ انڈیا اور یورپ میں ریل کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے۔لیکن اگر ہم مشرق وسطیٰ پر نظر ڈالیں تو وہاں ریل نیٹ ورک اتنا بڑا نہیں ہے جس کی وجہ سے مال برداری بنیادی طور پر سڑک یا سمندری راستے سے ہوتی ہے۔ریلوے نیٹ ورک بچھانے کی صورت میں مشرق وسطیٰ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سامان کی ترسیل آسان ہونے کا امکان ہے۔اس کے ساتھ یہ منصوبہ عالمی تجارت کے لیے جہاز رانی کا ایک نیا راستہ فراہم کر سکتا ہے کیونکہ اس وقت انڈیا یا اس کے آس پاس کے ممالک سے آنے والا سامان سویز نہر کے ذریعے بحیرہ روم تک پہنچتا ہے۔ اس کے بعد یہ یورپی ممالک تک پہنچتا ہے۔اس کے ساتھ امریکی براعظم میں واقع ممالک کو جانے والا سامان بھی بحیرہ روم کے راستے بحر اوقیانوس میں داخل ہوتا ہے جس کے بعد یہ امریکہ، کینیڈا یا لاطینی امریکی ممالک تک پہنچتا ہے۔

یوریشیا گروپ کے جنوبی ایشیا امور کے ماہر پرمیت پال چودھری کہتے ہیں: ’فی الحال، ممبئی سے یورپ جانے والے کنٹینرز سوئز نہر کے راستے یورپ پہنچتے ہیں۔ مستقبل میں یہ کنٹینرز دبئی سے اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ تک ٹرین کے ذریعے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہم کافی وقت اور پیسہ بچا کر یورپ پہنچ سکتے ہیں۔‘اس وقت بین الاقوامی تجارت کا 10 فیصد سویز نہر پر منحصر ہے۔ یہاں پر ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔اس واقعے نے بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک بحران پیدا کر دیا جس کی وجہ سے اس خطے سے سامان کی آمدورفت میں ایک ہفتے کی تاخیر ہوئی۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس ڈیل کے تحت ایک زیر سمندر کیبل بھی بچھائی جائے گی جو ان علاقوں کو آپس میں جوڑے گی اور اس طرح ٹیلی کمیونیکیشن اور ڈیٹا کی منتقلی کو تیز کرے گی۔اس معاہدے کے تحت گرین ہائیڈروجن کی پیداوار اور نقل و حمل کے انتظامات کیے جائیں گے۔بین الاقوامی تجارت کے ماہر ڈاکٹر پربیر ڈے کا خیال ہے کہ اس معاہدے کو مثبت سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے دنیا کو ایک نیا تجارتی راستہ ملے گا۔ڈاکٹر ڈے کہتے ہیں: ’موٹے طور پر، یہ معاہدہ دنیا کو ایک نیا تجارتی راستہ فراہم کرے گا۔ اس سے سوئز نہر کے راستے پر ہمارا انحصار کم ہو جائے گا۔ ایسے میں اگر اس راستے پر کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس سے بین الاقوامی تجارت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ متبادل راستہ دستیاب ہوگا۔‘’اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں ایسی ریلوے لائنیں نہیں ہیں جن کے ذریعے ہم ان کی مدد کر سکیں۔ اس راستے کی ترقی کے ساتھ، ہمارے لیے مشرق وسطیٰ سے تیل لانا آسان ہو جائے گا۔‘بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور جے این یو کے پروفیسر ڈاکٹر سورن سنگھ اسے مشرق وسطیٰ کے لیے بھی مثبت معاہدہ سمجھتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *