100 hospitals stop working in Khartoum: Sudanese health ministerتصویر سوشل میڈیا

خرطوم (اے یو ایس ) سوڈان کے وزیر صحت ہیثم ابراہیم نے تصدیق کی ہے کہ ریاست خرطوم میں کل 130 میں سے صرف 30 ہسپتال کام کر رہے ہیں، اور 100 ہسپتال پیچیدہ حالات اور مشکلات کے باعث بند ہیں۔انہوں نے پیر کو عرب نیوز ایجنسی کو بتایا کہ “جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستیں خرطوم اور دارفور ہیں، کیونکہ ریاست خرطوم کا شعبہ صحت براہ راست اور بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔”انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ “ہسپتال کچھ بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے کام کررہے ہیں، ان میں سے کچھ کا عملہ ہسپتالوں میں کام کرتا ہے، اور دیگر سامان بھیجتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ “ہم ان ہسپتالوں میں ضروریات فراہم کرنے کے لیے ممکنہ حد تک کام کر رہے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ “ریاست خرطوم میں اب بھی 6 سے 7 ملین کے درمیان شہری رہتے ہیں، اور انہیں طبی خدمات اور انسانی امداد کی ضرورت ہے۔”وزیر صحت نے اعتراف کیا کہ “خرطوم کے ہسپتالوں میں طبی سامان پہنچانے میں مشکلات درپیش ہیں، امدادی سامان پر حملوں کے علاوہ ایمبولینسوں پر بھی حملے کیے جاتے ہیں، اور گذشتہ عرصے کے دوران کافی تعداد میں طبی عملہ ہلاک یا زخمی ہوا ہے۔”انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ “ہمیں طبی امداد ملی ہے، لیکن سپلائی میں فرق اب بھی موجود ہے اور اسے ریاست، عطیہ دہندگان اور شراکت داروں کے طریقہ کار کے ذریعے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔”انہوں نے کہا کہ سوڈان بھر میں صحت کی فراہمی کے 6 ہزار ادارے ہیں جو پہلے ہی طبی آلات اور ادویات کی کمی کا شکار تھے، جنگ نے اس کی کمی کو بہت زیادہ بڑھا دیا۔

انہوں نے مزید کہا، “ہمیں گردوں کی بیماریوں، رسولیوں، اور کئی دائمی بیماریوں سے متعلق زندگی بچانے والی دوائیوں کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ کچھ بنیادی طبی استعمال کی اشیائ ، جیسے آرتھوپیڈک اور ایمرجنسی سرجیکل سپلائیز، اور میڈیکل لیبارٹریز کی بھی اشد ضرورت ہے۔”ڈائیلیسس کے لیے 15 سے زیادہ طبی مراکز ہیں جو اب بھی خرطوم ریاست میں کام کر رہے ہیں۔”سوڈان میں موسم خزاں کے قریب آنے کے ساتھ متعدد وبائی امراض جیسے بخار، اسہال، اور دیگر بیماریاں کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔اس سے نمٹنے کے لیے وزیر صحت نے کہا کہ ہمیں صحت کے مراکز ادویات کے ساتھ ساتھ کیڑے مار ادویات اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی وبائی امراض خاص طور پر ملیریا، ڈینگی بخار، اور دیگر سے نمٹنے کے لیے میکانزم بنانے کی ضرورت ہے۔ جو حالیہ عرصے میں کافی پھیل چکے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ ” ہم نے سوڈانی ریاست کے مجموعی منصوبے کی بنیاد پر ایک ہنگامی منصوبہ تیار کیا ہے، جس میں موجودہ حالات کی روشنی میں بحران کا انتظام شامل ہے۔ہم مختلف ریاستوں میں صحت کے نظام کو مضبوط بنانے اور صحت کے اداروں کی تعمیر نو کے لیے کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد طبی سطح پر خرطوم کی ریاست کی طرف سے پیدا کردہ خلا کو پر کرنا ہے۔”انہوں نے سوڈان کے لیے بین الاقوامی حمایت کی بھی تعریف کی، مگر کہا کہ یہ ابھی مطلوبہ سطح سے کافی کم ہے۔انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ “ہسپتالوں، طبی مراکز اور طبی سپلائی آپریشنز کی حفاظت کی جائے، کیونکہ 40 ہسپتال ریپڈ سپورٹ فورسز کے کنٹرول یا جھڑپوں کے علاقوں میں ان کی موجودگی کی وجہ سے سروس سے باہر ہیں۔”سوڈان میں طبی عملہ زخمیوں اور متاثرین کی مدد کرنے اہم کردار ادا کر رہا ہے مگر یہ اکثر فائرنگ کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے زیادہ دباؤ ڈالے اور انھیں نشانہ بنانے سے روکے۔”خیال رہے کہ اس سے قبل بین الاقوامی تنظیم ریڈ کراس نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں جاری لڑائی کی وجہ سے انسانی ہمدردی کی تنظیموں اور طبی عملے کی کوششوں کے باوجود صحت کا نظام تباہی کے قریب ہے۔عالمی ادارہ صحت نے سوڈان میں تنازعات کے نتیجے میں تنظیم اور دیگر بین الاقوامی اور حکومتی اداروں کی متاثرہ علاقوں تک پہنچنے میں ناکامی کے علاوہ صحت کے نظام کی خرابی کی وجہ سے متعدد وبائی امراض کے پھیلاو¿ کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل نے پانی، خوراک، ادویات اور بجلی کی سپلائی کی کمی کے بارے میں خبردار کیا۔سوڈان کے ڈاکٹروں کی یونین نے انکشاف کیا کہ جھڑپوں کے علاقوں میں 70% ہسپتالوں میں خدمات نہیں دی جارہی۔سوڈان کا یہ بحران اس سال 15 اپریل کو شروع ہوا تھا جب سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان لڑائی چھڑ گئی تھی، جب کہ فوجی اور سویلین جماعتیں ایک سیاسی عمل کو حتمی شکل دے رہی تھیں جس کے نتیجے میں سویلین حکومت کی تشکیل کی جانی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *