سہیل انجم

سال 2019 ہندوستان کے لیے بڑا ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ یکے بعد دیگرے متعدد ایسے واقعات پیش آئے جو پورے ملک میں بلکہ کئی موضوعات پوری دنیا میں موضوع گفتگو بنے رہے۔ یہاں پیش ہے ایسے ہی کچھ واقعات کی تفصیل:
پلوامہ خود کش حملہ
14 فروری کو جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ میں سیکورٹی فورسز کے ایک قافلے پر خود کش حملہ ہوا۔ جس میں 40 جوان ہلاک ہو گئے۔ اس واقعہ پر حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن میں نونک جھونک بھی چلی۔ دونوں جانب سے الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ آزاد ہندوستان میں سیکورٹی فورسز پر یہ سب سے بڑا حملہ تھا۔ ہندوستان نے اس حملے کے لیے پاکستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیم جیش محمد پر الزام عائد کیا۔ 26 فروری کو فضائیہ نے پاک مقبوضہ کشمیر کے علاقے بالاکوٹ میں واقع جیش کے ٹریننگ سینٹر پر حملہ کیا جس میں ہندوستان کے مطابق بڑی تعداد میں دہشت گرد ہلاک ہوئے اور ٹریننگ سینٹر کو شدید نقصان پہنچا۔ پاکستانی فضائیہ نے اس کے اگلے روز لائن آف کنٹرول (ایل او سی) عبور کر کے ہندوستانی افواج کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ فضائی لڑائی کے دوران ایک ہندوستانی مگ 21 طیارہ مقبوضہ کشمیر میں گرا۔ جس کے زندہ بچ جانے والے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعدازاں عالمی دباو¿ کے بعد پاکستان نے انھیں رہا کیا اور ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ اس لڑائی میں پاکستان کا ایک جنگی طیارہ ایف 16 تباہ ہو گیا۔ حالانکہ پاکستان اس کی تردید کرتا ہے۔ لیکن امریکہ نے اس لڑائی میں ایف 16 استعمال کرنے پر پاکستان کی گوشمالی کی ہے۔

پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی
گزرا ہوا سال ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات کا سال رہا۔ مبصرین کے مطابق پلوامہ حملہ، بالاکوٹ کارروائی، قوم پرستی اور پاکستان مخالفت کے ایشوز نے انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔ سات مراحل میں ہونے والے انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان 23 مئی کو کیا گیا۔ جس میں بی جے پی نے 302 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ انتخابات سے قبل اور اس کے دوران بھی سیاسی مبصرین یہ قیاس آرائی کرتے رہے کہ الیکشن میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوگی اور ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ لیکن ساری قیاس آرائیاں دھری رہ گئیں اور بی جے پی کو عدیم المثال کامیابی مل گئی۔ حالانکہ اس تعلق سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں تنازعہ بھی پیدا ہوا لیکن الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کے بارے میں تمام خدشات کو نادرست قرار دیا۔

طلاق ثلاثہ غیر قانونی
نریند رمودی کی قیادت میں دوبارہ حکومت قائم ہونے کے بعد حکومت نے تیز رفتاری سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں اس کا بڑا قدم طلاق ثلاثہ سے متعلق قانون سازی تھا۔ پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرکے بیک وقت تین طلاقوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ مذکورہ قانون کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیتا ہے تو اسے تین سال کی جیل ہوگی۔ لیکن اس قانون کے بعد بھی طلاق ثلاثہ کی بدعت جاری ہے اور پولیس مقدمات قائم کر رہی ہے۔

دفعہ 370 کا خاتمہ
سال 2019 کا ایک بہت اہم واقعہ جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے والی دفعہ 370 کا خاتمہ تھا۔ یہ دفعہ جموں و کشمیر کو نیم خود مختاری دیتی تھی۔ لیکن وزیر داخلہ امیت شاہ نے پانچ اگست کو پہلے راجیہ سبھا میں اور اس کے بعد لوک سبھا میں اس دفعہ کے خاتمے کا بل پیش کیا جسے گھنٹوں تک چلی بحث کے بعد منظور کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنا دیے گئے۔اس موقع پر کشمیر میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے۔ سیاحوں اور امر ناتھ یاتریوں کو واپس بلا لیا گیا۔ بل کی منظوری کے بعد جموں و کشمیر میں لاک ڈاون شروع ہو گیا۔ لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ انٹرنیٹ اور فون خدمات معطل کر دی گئیں۔ بڑی تعداد میں سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔ ان پابندیوں کے دوران سیکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا یا حراست میں لے لیا گیا۔ جن میں تین سابق وزرائے اعلی فاروق عبد اللہ، عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں۔ وہ اب بھی نظر بند ہیں۔ جموں و کشمیر میں اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔ یہاں تک کہ بڑی مساجد میں نماز پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ ان پابندیوں کی وجہ سے کشمیر کی معیشت پر برا اثر پڑا اور ذرائع کے مطابق ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تاکہ عوام کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی جا سکے۔ حکومت کے اس اقدم پر پوری دنیا میں رد عمل ظاہر کیا گیا۔ لیکن ہندوستان کا کہنا ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے اور اس نے جو کچھ کیا ہے آئین کے دائرے میں رہ کر کیا ہے۔

آسام کے 19 لاکھ شہری غیر ملکی قرار
شمال مشرقی ریاست آسام میں اگست ماہ میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کی حتمی فہرست جاری کی گئی۔ جس کے مطابق 19 لاکھ افراد کی شہریت مشکوک ہو گئی۔ اس پر بھی پوری دنیا میں رد عمل ظاہر کیا گیا ۔ اس سے قبل جو فہرست جاری کی گئی تھی اس کے مطابق چالیس لاکھ افراد غیر ملکی قرار دیے گئے تھے۔

چندریان
نومبر میں خلائی تحقیق کے ادارے اسرو نے چندریان نامی ایک خلائی مشن چاند پر بھیجا مگر اس مشن میں وہ ناکام رہا۔ اگر خلائی گاڑی جسے وکرم نام دیا گیا چاند پر اتر گئی ہوتی تو ہندوستان یہ کارنامہ انجام دینے والا دنیا کا پانچواں ملک بن جاتا۔ لیکن وکرم چان د کی سطح سے ذرا پہلے ہی گر گیا جس کی وجہ سے اسرو کے خلائی مرکز سے اس کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ بعد میں وکرم کا پتہ لگ گیا۔ اب ہندوستان دوسرا مشن جلد ہی شروع کرنے والا ہے۔ اس ناکامی کے باوجود ہندوستان کا یہ قدم ایک بڑا تاریخی واقعہ تھا۔

بابری مسجد تنازع کا فیصلہ
134 سال سے چلے آرہے ایودھیا مقدمے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کی جگہ ہندوو¿ں کو دینے اور وہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے ایودھیا کے کسی مناسب مقام پر پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کی بھی ہدایت کی۔ بیشتر مسلمان تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔ عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کی حمایت میں دی گئی بیشتر دلیلوں کو تسلیم کیا اور کہا کہ 1949 میں اس میں خفیہ طریقے سے مورتیاں رکھ دی گئی تھیں۔ بابری مسجد کے نیچے نہ تو رام مندر کا کوئی ثبوت پایا گیا اور نہ ہی کسی مندر کا کوئی ثبوت ملا۔ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود فیصلہ مندر کے حق میں دیا گیا ۔ مسلم فریقوں کی جانب سے اس فیصلے پر نظرثانی کی متعدد اپیلیں دائر کی گئیں جنہیں سپریم کورٹ نے خارج کر دیا۔

اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست
سال کے اختتام پر ہریانہ اور مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی برسراقتدار تھی لیکن دونوں میں اسے شکست ہوئی۔ ہریانہ میں وہ اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ لیکن اس نے ایک مقامی سیاسی جماعت جے جے پی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کر لی۔ مہاراشٹر میں بی جے پی اور شیو سینا کے اتحاد کو اکثریت حاصل ہوئی لیکن وزیر اعلیٰ کے منصب پر دونوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ شیو سینا کا اصرار تھا کہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ دونوں جماعتوں کو ڈھائی ڈھائی سال کے لیے ملے جو کہ بی جے پی کو منظور نہیں تھا۔ لہٰذا شیو سینا نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اور کانگریس کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ آخر کار ان تینوں جماعتوں نے مخلوط حکومت قائم کر لی۔ اس طرح وہاں بی جے پی اقتدار سے باہر ہو گئی۔
ریاست جھارکھنڈ میں بھی بی جے پی برسراقتدار تھی لیکن دسمبر میں ہونے والے الیکشن میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور کانگریس کے اتحاد کی حکومت بن گئی۔ 2019 جہاں پارلیمانی انتخابات کی وجہ سے بی جے پی کے لیے یادگار ثابت ہوا وہیں ریاستوں میں اس کی حکومت سکڑتی گئی۔

شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور ملک گیر احتجاج
حکومت کی جانب سے دسمبر میں کیا جانے والا ایک بہت اہم فیصلہ شہریت قانون میں ترمیم ہے۔ اس نے پہلے لوک سبھا میں اور پھر راجیہ سبھا میں ایک بل پیش کیا۔ بل میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر جبر کا سامنا کرنے کی وجہ سے ہندوستان آنے والے غیر مسلموں کو یہاں کی شہریت دینے کی منظوری دی گئی۔ حکومت نے اس زمرے میں ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور عیسائی برادری کو رکھا لیکن مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ دونوں ایوانوں میں گھنٹوں جاری رہنے والی بحث کے بعد یہ بل منظور کر لیا گیا۔ 11 دسمبر کو راجیہ سبھا میں اسے منظور کیا گیا اور 12 دسمبر سے ہی اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *