افراسیاب خٹک
چونکہ منصوبہ کے مطابق بین الاقوامی فوجوں کے انخلا اور افغان حکومت اور طالبان کے مابین ممکنہ امن مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان مکمل خودمختاری کے حصول کی جانب پیش رفت کرتا نظر آرہا ہے اس لیے ملک کے سیاسی رہنما وں کو خاص طور پر اور افغان باشندوں کو بالعموم اپنے ملک کی عوامی جمہوریت اور امن اور خوشحالی کی راہوں کا تحفظ کرنے کے لئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔گذشتہ چند عشروں اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں کبھی کبھی افغانوں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ انہیں ان کی تقدیر بنانے میں پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ 2014 میں بین الاقوامی فوجیوں کے انخلا کے منصوبے کے بعد سے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بارے میں اس انداز میں بہت باتیںکی جارہی ہیںگویا لاکھوں افغانیوں کی پریشانیاں محض ایک اور کھیل ہے۔ اس کے بعدبڑے پیمانے پر غیر ملکی فوجوں کی واپسی کا منصوبہ اور بڑے سیاسی تغیرات بشمول 29 فروری کو امریکی۔طالبان معاہدے پر دستخط کے باوجود افغانستان میں خونریزی بدستور جاری ہے۔ یہی سچ ہے کہ سوائے حالیہ عید الفطر کی تعطیلات کے دوران ہونے وا لی مختصر جنگ بندی تک جب طالبان نے اپنے قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لئے حملے بند کردیئے تھے، خونریزی میں کمی واقع نہیں ہوئی۔جہاں ایک جانب افغانوں کا اپنے مردوں کی تدفین کرتے رہنے کا سلسلہ اور اور ہر طرح کے ناقابل تصور تشدد کا شکار رہنا جاری ہے وہیں دوسری جانب افغانستان کی 42 سالہ جنگ میں بیشتر بڑے ممالک دوغلا پن دکھا رہے ہیں۔
ان کے قول و عمل میں اسقدر تضاد ہے کہ وہ ایک بات کہتے ہیں اور اس کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن ہیں لیکن عملی طور پر اس کے بالکل برعکس کرتے ہیں۔ کسی کواس سے آگے دیکھنے کی کہ جب مذاکرات کے لئے درکار تمام طریقہ کارپہلے ہی شروع ہو چکے تو بین افغان مذاکرات اور جنگ بندی کو کیا چیز روک رہی ہے، کوئی ضرورت نہیں ۔افغانستان میں ریڈ آرمی کی واپسی کے بعد کے منظر نامے کوکسی نہ کسی شکل میں دہرایا جارہا ہے۔1980 کی دہائی میں اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ افغانستان میں جنگ جاری رہنے کا واحد سبب عنصر سوویت فوج کی موجودگی تھا۔ بڑے زور شور کے ساتھ یہ دلیل دی گئی سوویت فوج کے افغانستان سے چلے جانے کے فوراً بعد پائیدار امن قائم ہو جائے گا۔ لیکن یہ تصور غلط ثابت ہوا کیونکہ فروری 1989 میں افغانستان سے سوویت فوج کی واپسی عمل میں آتے ہی ایک نئی اور تباہ کن جنگ کا آغاز ہوگیا۔جس نے اس وقت کے مروجہ حکومتی نظام کو ہی تہس نہس کر دیا۔ آج کی طرح اس وقت بھی پاکستان نے نام نہاد اسٹریٹجک گہرائی قائم کرنے کے لیے افغانستان پر کٹھ پتلی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کی۔جیسے ہی خانہ جنگی شروع ہوئی ایران ، ہندوستان اور روس پاکستان کو روکنے کے لئے شمالی اتحاد کی حمایت میں آگے آئے ، جس کے نتیجے میں افغانستان میں تباہ کن پراکسی جنگ شروع ہو گئی۔اسی حکمت عملی کو دوہراتے ہوئے طالبان اور ان کے پاکستانی آقا نے یہی راگ الاپنا شروع کر دیا کہ امریکی اور ناٹو افواج کے انخلا کے حوالے سے جو بھی معاہدہ ہوگا اس سے افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا۔ لیکن امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک معاہدے پر، جس میں امریکی افواج کے انخلا کے لئے ٹائم ٹیبل تیار کیا گیا تھا، دستخط کے چار ماہ بعد بھی طالبان کی خودکش حملوں اور عام شہریوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں سمیت حکومت افغانستان اور معاشرے کے خلاف جنگ جاری ہے۔
طالبان اور ان کے بیرونی سرپرست دیکھو اور انتظار کروکھیل کھیل رہے ہیں۔ افغانستان میں ریاستی نظام کے پارہ پارہ ہوجانے سے ہی ان کی امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ ایک جائز آئین کے عین مطابق قائم حکومتی نظام اور بین الاقوامی برادری کے ایک رکن سے بات کرنا ایک چیز ہے اور اس حکومتی نظام کے ڈیہہ جانے کے بعد جنگجوؤں کے چھوٹے غیر معتبر اور بدنام دھڑوں سے بات کرنا دوسری چیز ہے۔ انہیں توقع تھی کہ پچھلی قومی اتحاد کی حکومت اس کے داخلی اختلافات و تنازعات کی وجہ سے انتشار کا شکار ہو جائے گی جواسلامی جمہوریہ کے نام سے قائم موجودہ سیاسی نظام کے خاتمے کا خود بخود ایک سبب بن جائے گا۔ اس سے کسی قسم کی فوجی مار کاٹ کے بغیر ہی طالبان کی ”امارت اسلامیہ“ کی راہ ہموار ہوجا ئے گی۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعد کے ارتکاز نے اس ضمن میں صرف ان کی امیدوں کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ کے درمیان حالیہ مصالحت کے بعد اسلامی جمہوریہ کے انتشار کے لیے داخلی سیاسی عنصر اب نہیں رہا۔ لیکن ابھی بھی کئی ایسے عوامل ہیں جو انہیں بین افغان مذاکرات اور مصالحتی عمل میں ٹانگ اڑانے کا موقع دینے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کو کافی ہیں۔
طالبان خیمہ سمجھتا ہے کہ دوحہ معاہدے میں افغانستان میں قیام امن اور مصالحت سے زیادہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کو حق بجانب قرار دینے پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔ اس سال نومبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کی کوشش میں اس معاہدے کو ٹرمپ کی ایک بڑی خارجہ پالیسی کامیابی کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ کوویڈ19-وبا نے طالبان کی اس امید کو مزید تقویت بخشی ہے کہ امریکہ افغانستان میں قیام برقرار رکھنا بھی چاہے تب بھی معاشیات پر پڑنے والے اثرات جیسے بحران امریکی افواج کو افغانستان میں اپنے قیام کو طول دینے سے باز رکھیں گے ۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں ابھی بھی اس گروپ کی دہشت گردی مچانے کے لیے ہزاروں کرایہ کے ٹٹوؤں کی میزبانی کرنے اور بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کے عہد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بدقسمتی سے ، ایران اور پاکستان دونوں میں حقیقی اختیارات کے مالکان افغانستان کے حوالے سے اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے چپکے ہوئے ہیں۔ اگر پچھلے 40 سالوں کا تجربہ دیکھا جائے تو ، دونوں ہمسایہ ممالک کی اس غیر منطقی پالیسی نے نہ صرف افغانستان کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ان پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ تاہم ، افغانستان کے بارے میں ان کی پالیسیوں میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی ہے۔عراق ، لبنان ، شام ، اور یمن میں فوجی مداخلت کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی پیچیدگیوں اور امریکہ کی سخت ظالمانہ پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کے باوجود ایران نے افغانستان میں دلچسپی لینا بند نہیں کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں افغانستان میں یہ دلچسپی محض نسلی عنصر تک ہی محدود نہیں ر کھی گئی بلکہ ایران نے طالبان کے ساتھ خاطر خواہ تعلقات استوار کرکے اپنا اثر و رسوخ اوربڑھالیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم بھول جائیں ایران اپنے پرانے نام پرشیا کے برعکس نہیں ایک وسیع خطے کا نام ہے جس پر ایرانی ملا اپنا غلبہ قائم رکھنا چاہیں گے۔اسی طرح ، تقریبا ًایک چوتھائی صدی تک پاکستانی فوج نے طالبان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے کہ وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا ۔ ایک طالبان غلبہ والا افغانستان اس کی ذہنیت کے لیے، خاص طور پر نریندر مودی کے ہندوستان کے ذریعہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد ،مثالی ہوگا -۔ پینٹاگون کی ایک حالیہ رپورٹ میں افغانستان میں طالبان کے تشدد کو پاکستانی حمایت جاری رہنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ 2018 میں بغاوت اوردھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پاکستان نے ایک مخلوط النسل جمہوریت سے دو نسلاًمارشل لاءمیں تبدیل ہو گیا ہے۔ خارجہ پالیسی پر غیر فوجی نقش پا کے نشانات بالعموم اور بالخصوص افغان پالیسی پر ندارد ہو چکے ہیں۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور امریکی طالبان کے معاہدے میں دایہ گری کا کردارادا کرنے کے بعد پاکستانی فوجی جنرلوں کو کافی حد تک راحت ملی ہے کیونکہ امریکی دباؤ میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں پشتونوں کو ڈیورنڈ لائن سے متصل اضلاع میں حکومتی سرپرستی میں طالبان کے دوبارہ منظم ہونے پر، جونئے تنازعات کو جنم دے رہا ہے، سخت تشویش ہے ۔بدقسمتی سے ایک ایسے وقت میں جب پوری انسانیت کورونا وائرس کے بحران کی زد میں ہے ایک نئی سرد جنگ نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں چین کو اسی طرح ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہی ہیں جیسی گذشتہ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین چین کو دیکھتا تھا۔
وہ چین کے ایک پٹی ایک سڑک (بی آر آئی) کو چین کے لیے ایک نئے چینی مرکزیت والے عالمی نظام کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ یہ ابھرتا ٹکراؤ خطہ میں محاذ آرائی کو دعوت دینے اور علاقائی تعاون کے ذریعہ معاشی ترقی کے امکانات کو نقصان پہنچانے کو کافی ہے۔ صرف علاقائی ممالک کی ایک حقیقت پسندانہ اور دور اندیشانہ پالیسی ہی خطے کو نئی سرد جنگ کے منفی نتیجہ سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔افغانوںکے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ غیر ملکی طاقتوں سے جھوٹی توقعات وابستہ کرنے کے بجائے اپنے ہی لوگوں پر زیادہ بھروسہ و انحصار کریں۔ خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بناتے ہوئے انہیں افغان حکومتی نظام میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنا ہوگا ۔ بڑی عمر کی نسل کو ملک کی باگ ڈور نوجوانوں کو سونپنا ہوگی۔ افغان نوجوانوں کی توانائی ، عزم و استقلال اور آگے بڑھنے کی خواہش سے وہ کرشمہ ہوسکتا ہے جس کا ایک طویل عرصہ سے افغانستان منتظر ہے۔ لیکن یہ موجودہ قائدین کے ذریعہ ذاتی اور علاقائی مفادات پر قومی مفاد کو ترجیح دیئے بغیر نہیں ہوسکتا۔
( مضمون نگار سابق پاکستانی سینیٹر اور علاقائی امور کے تجزیہ کار ہیں)
