Trammelled Pashtun aspirations,The sad tale of another oppressed ethnic minority in Pakistan

تحریر:سوجان چنوئے

ابتداسے ہی پاکستان پشتونوں کی نسلی شناخت کے حوالے سے بہت چوکنا رہا ہے ، اور ان کی نسلی ثقافتی امنگوں کو کچلتا رہا ہے۔ پاکستان کی فوج میں دوسرا بڑا نسلی طبقہ ہونے کے باوجود پشتونوں کو سرحد پار افغانستان میں نسلی تعلقات کی وجہ سے شک کی نگاہ سے د یکھا جاتا ہے۔ افغانستان میں کسی بھی حکومت نے یہاں تک کہ طالبان نے بھی کبھی بھی پشتون قوم کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم کر نے والی اس بے قاعدہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا ۔پاکستان کی تاریخ صوبائی خودمختاری کے مطالبات کچلنے کے لئے اپنی ہی سرزمین پر سخت فوجی کارروائیوں کی مثالوں سے آراستہ ہے۔ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی ہولناک خونریزی کے بعد بنگلہ دیش وجود میں آیا۔

پاکستان نے صوبائی خودمختاری کے جھوٹے وعدوں اور چکنی چپڑی باتوں سے پشتونوں کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ تاہم 1973 کے آئین میں اس کی مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے طور پر توثیق کر دی گئی ۔ نیشنل عوامی پارٹی کی،جو پشتونوں کے معاملات کی نگہباں کی حیثیت رکھتی ہے ، تسلسل سے دو بار یعنی 26 نومبر 1971 اور پھر 10 فروری 1975 کو غیو قانونی قرار دے دیا گیا۔غیرت دار پشتون قوم نے ہمیشہ پنجابیوں کے غلبہ والی حکومت اور فوج کے ظلم و ستمکے خلاف مزاحمت کی ہے۔1980 کے عشرے میں جب سے پاکستان نے اپنی سرزمین کو افغان جہادکے دوران بنیاد پرستی کے درس اور انتہاپسندی کی تربیت کے لئے ایک تربیت گاہ میں تبدیل کیا ہے ، تب سے ہی پشتون سرحد پار سے ہونے والے تشدد سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان کی پالیسیاں غیر ملکی بنیاد پرستوں کی ملک میں بڑے پیمانے پر آمد کا باعث بنی ہیں ، جنھوں نے ایک لاقانونیت کا ماحول پیدا کر دیا جس میں مقامی لوگ بری طرح پس رہے ہیں ۔ پاکستان کی بے سمت فوجی کارروائیوں نے مقامی معیشت کو ردی کر دیا اس کے نتیجے میں قبائلی لوگوں کی اندرون ملک نقل مکانی اور جرائم و منشیات کی اسمگلنگ بڑھ گئی ۔پشتون تحفظ تحریک(پی ٹی ایم)جو پشتونوں کے شہری اور سیاسی حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والا ایک غیر متشدد تنظیم ہے،جنوری 2018 میں کراچی پولیس کے ایک جعلی تصادم میں ایک فعال پشتون رہنما نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ ایک سماجی و سیاسی تحریک ، جو فوج کی زیادتیوں کو کھلم کھلا چیلنج کرتی ہے ، پی ٹی ایم نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی ، اور پورے پاکستان میں پنجابی غلبہ والے اداروں میں دوسرے درجہ کے شہریوں جیسے سلوک سے دوچار پشتونوںکو اپنی جانب متوجہ کر لیا ۔پی ٹی ایم نے فروری 2018 میں وزیرستان سے اسلام آباد تک 5ہزار رضاکاروں کے مارچ کا انعقاد کیا اور حکومت کو پانچ نکاتی میمورنڈم پیش کیا جس میں پشتونوں کے قتل کے خاتمے، بارودی سرنگوں کے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو بارودی سرنگوں سے پاک کرنا گرفتار شدگان کے لیے ایک مقررہ مدت کے اندر عدالتی عمل ، ماؤرائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن کے قیام اور محسود کے قتل میں ملوث پولیس افسر راؤ انوار کے خلاف قانونی کارروائی کرنا جیسے مطالبات شامل تھے۔

پی ٹی ایم پاک فوج کو وردی پوش دہشت گرد کے طور پر دیکھتی ہے۔ انتقامی کارروائی کے طور پر حکومت نے اس تحریک کو بدنام کرنے اور عوامی احتجاج کو دبانے کے لئے ایک زبردست میڈیا مہم چلائی ۔ پی ٹی ایم کے ایک ممتاز رہنما اور قومی اسمبلی (ایم این اے) کے ممبرعلی وزیر کے کزن عارف وزیر کے حالیہ قتل نے آگ پر پیٹرول کاکام کیا۔ ان کا قتل مخالفین کو خاموش کرنے کی حکومت کی صلاحیت کی ایک کڑی یاددہانی تھی ۔پی ٹی ایم نے خیبر پختون خوا (کے پی) کے قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کی من مانے اور منصوبہ بند کارروائیوں کی جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ،جو پاکستان طالبان کے طور پر بھی جانی جاتی ہے،کو نشانہ بنانے کے مقصد سے کی جاتی ہیں، مخالفت کرتی ہے ۔ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے ساتھ اپنی وابستگی رکھتی ہے لیکن اس کے نادر ایک طاقتور طبقہ پاکستانی فوج اور حکومت کو غیر اسلامی سمجھتا ہے۔۔ پی ٹی ایم کا الزام ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان نے اپنے اپنے مخالفین کا صفایہ کرنے کے لیے اچھے اور برے طالبان کے درمیان ایک مصنوعی فرق کے لیے ایک خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے۔

سردار عارف وزیر پشتونوں کے حقوق کے علمبردار تھے اور حکومت کی سرپرستی میں کیے جانے والے تشدد کے شدید مخالف تھے یہاں تک کہ انہیں یکم مئی کو گولی مار دی گئی ۔لیکن حکام نے ان کے قتل کو حق بجانب قرار دیا جو کوئی حیران کن بات بھی نہیں تھی ۔ عارف کے قتل نے ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ وانا میں ان کی تدفین میں ہزاروں قبائلیوں کا مجمع تھا ۔پی ٹی ایم رہنما اور شمالی وزیرستان کے ممبر قومی اسمبلی محسن داور نے 2 مئی کو ایک ٹویٹ میں اپنی پارٹی کے اس موقف کا اعلان کیا کہ عارف وزیر کو ”اچھے“ دہشت گردوں نے قتل کیا ہے اور ان کے آقاؤں کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ اس کے فورا بعد ہی ہیش ٹیگ اسٹیٹ کلڈ عارف وزیر (حکومت نے عارف کا قتل کیا) سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا۔ عارف حکومت کی سرپرستی میں پل رہے انتہاپسندوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے اپنے خاندان کے 18ویں رکن تھے ۔ نام نہاد جہاد کی آڑ میں پاکستان کا انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا منظم انداز میں استعمال ،خواہ وہ افغانستان میں ہو یا ہندوستان کے جموں و کشمیر میں یا پاکستان کے خیبر پختون خوا اور فاٹا علاقے ہوں ، بہت سوچی سمجھی اسکیم اور منصوبے کے تحت ہے ۔یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس سے پاکستان پر منفی نتائج منطبق ہوں گے۔