Pakistan's Imran Khan misfires

پاکستان میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے اپنی طویل جدوجہد کے دوران عمران شاذ و نادر ہی امریکہ کے تئیں اپنی نفرت چھپا سکے۔ عمران خان کی رٹی رٹائی ہر تقریر میں پاکستان کو منھ بھر بھر کر کوسا جاتا تھا کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں اس کا ساتھ دے کر زبردست نقصان اٹھایا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پانچ میں سے بمشکل تمام ایک پاکستانی امریکہ کے تئیں خوش گمان تھا۔

عمران خان کی باغیوں سے کھلی ہمدردیوں نے ایک بار انہیں ”طالبان خان “ کی عرفیت دی تھی۔ بہت سے مبصرین و مشاہدین نے قیاس کیا تھا کہ جیسے ہی عمران خان وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوں گے سب بھول بھال جائیں گے اور جس نفرت کا اظہار کر رہے ہیں وہ اڑن چھو ہو جائے گی۔ اور یہی ہوا بھی ۔

مبصرین کا کہا درست ثابت ہوا۔ وزیر اعظم کے طور پر وہ اپنی اقتصادی حالت زار اور سیاسی حیثیت کے پیش نظر امریکہ سے دوری اختیار کرنے یا اجنبیت کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔انہوں نے ان کی مدد کرنے والی فوج سے کہا کہ ان کی خاطر وہ ان کی باتوں کو سنبھالے۔

خان کا خود کو مہینوں قابو میں رکھنے کا باندھ گذشتہ ہفتہ اس وقت ٹوٹ گیا جب انہوں نے قومی اسمبلی سے خطاب کیا۔ وہ خو دپر قابو نہ رکھ سکے اور وہ امریکہ کا ساتھ دینے کے لیے اپنے پیش روؤں کو کوستے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہا آج کوئی ہماری بے عزتی نہیں کر تا وہ اس حد تک چلے گئے کہ اسامہ بن لادن تک کی مدح سرائی کرگئے۔

خان کا بن لادن کی موت کو جسے امریکہ نے ہلاک کیا شہادت کی موت قرار دینا بلا شبہ امریکہ میں ابروئیں تن گئی ہوں گی اورپاکستان کے لیے پریشانی کھڑی ہو جائے گی۔

ایک ایسے نازک وقت میں جب پاکستان بین افغان مذاکرات کی مساعی میں امریکہ کے ساتھ کام کر رہا ہے وزیر اعظم کا بیان مناسب نہیں لگتا ۔مزید برآں پاکستان کثیر اقوامی فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگا ہے کہ وہ دہشت گردی کی مالی اعانت پر قابو پانے کے اپنے وعدے کو نبھانے میں مخلص ہے۔

اگر وہ ایف ٹی اے ایف کو یقین دلانے یا قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا جس سے بستر مرگ پر پڑ ے اس کے اقتصادی نظام پر اور بھی زیادہ کاری ضرب لگے گی۔

خان نے اتنی سخت تقریر کیوں کی کچھ کہنا مشکل ہے۔دیکھا جائے تو انہوں نے اپنی مہم ترک نہیں کی ہے۔ اس کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا کہ وزیر اعظم اپنی حکومت کا کام کاج دیکھنے کی نسبت حزب اختلاف میں رہ کر زیادہ پر سکون رہیں گے۔اپنے بڑے سیاسی حریفوں کو کنارے لگا نے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد انہیں اب حکومتی کام کاج میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔

اقتصادیات سے متعلق امور اور کورونا وائرس وبا سے نمٹنے کے حوالے سے وہ لڑکھڑا گئے ہیں۔ اور قومی اسمبلی میں حالیہ تقریر سے انہوں نے خود اپنے اور پاکستان کے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔