UN experts appalled by enforced disappearance of Pak activist Idris Khattak, call for impartial probe

جینوا (سوئزر لینڈ): اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ماہرین نے پاکستان کے ایک حقوق انسانی کارکن ادریس خٹک کی جبراً گمشدگی کی شدید مذمت کی اور اسے پاکستان کے خیبر پختون خوا صوبے اور سابق وفاقی قبائلی علاقہ جات میں حقوق انسانی کی پامالی اور اقلیتوں سے بدسلوکی کے خلاف ان کے جائز عمل پر ناقابل برداشت حملہ قرار دیا۔

گذشتہ روز ایک مشترکہ بیان میں 9حقوق انسانی ماہرین نے خٹک کے اغوا اور ان کے اغوا اور محروم رابطہ قید کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ وہ پاکستانی حکام کے ذریعہ جبراً لاپتہ کردیے جانے کی مستقل کارروائی اور اس ضمن میں پاکستان میں ہزاروں معاملات کو حل نہ کیے جانے سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں ۔

خٹک کو آخری بار گذشتہ سال 13نومبر کو اس وقت دیکھا گیا تھا جب انہیں صوبہ خیبر پختون خوا کے صوابی کے قریب فوجی کارندوں نے ان کی کار روکی تھی۔اور کم و بیش 8ماہ بعد16جون پاکستانی حکام نے پہلی بار قاس کا اعتراف کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں گرفتار کیا ہے اور وہ اسی وقت سے قید ہیں اور ان کو کسی سے رابطہ قائم نہیں کرنے دیا جارہا۔

بیان میں کہا گیا کہ تقریباً7ماہ قبل خٹک کو جبراً لاپتہ کر نا پاکستان کے خیبر پختون خوا صوبے اور سابق وفاقی قبائلی علاقہ جات میں حقوق انسانی کی پامالی اور اقلیتوں سے بدسلوکی کے خلاف آواز بلند کرنا،نظر رکھنا اور رپورٹ تیار کرنے کے ان کے جائز عمل پر ناقابل برداشت حملہ قرار دیا گیا۔

اس مشترکہ بیان کو جاری کرنے والوں میں جسمانی تشدد اور دیگر ظالمانہ،غیر انسانی یا بدسلوکی کرنا یا سزا دینے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی ریپورٹر نیلس میلزر، چیف ریپورٹر لوسیانو ہزان، نائب چیرمین تائی اونگ بائک، اسپیشل ریپورٹر برنارڈ دوہیم، ہوریا السالمی،ہنریکاز میکویکوئیس ، میری لالور، ایگنیس کلامرڈ ،فرنانڈ ڈی ویرینز شامل ہیں۔