نئی دہلی: ایک سینیئر حکومتی عہدیدار نے کہا ہے کہ ایک آزاد خارجہ پالیسی پر چلنے اور علاقائی امن کی حفاظت کرنے کے لیے چین کی نصیحت اس کی نہ صرف منافقت کی عکاسی کرتی ہے بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ رشتوں میں اس کے دوغلے پن کی بھی مظہر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ چین اپنا منافقانہ رویہ ترک کر کے بین الاقوامی قانون کے عین مطابق خطہ اور دنیا بھر میں امن قائم کرنے کے لیے حقیقی اقدام کرے گا ۔وہ چاہتا ہے کہ ہندوستان امریکہ جیسے اپنے قریبی اتحادیوں کو چھوڑ دے تاکہ اس کے سدا بہار اتحادی پاکستان کے برعکس ہندوستان کے عدم توسیع جوہری اسلحہ کے صاف ستھرے ریکارڈ کے باوجود ا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکن کے طور پر اس کے داخلے یا ایٹمی سپلائرز گروپ کا ایک رکن بنانے کی کسی بھی عالمی کوشش کو روکا جائے۔
اس نے لداخ میں جو حرکت کی ہے اس نے امن و سکون کی آڑ میں اس کی مکاری بے نقاب ہو گئی ہے۔ہندوستان کے قومی سلامتی ادارے کے ایک اور عہدیدار نے کہا کہ چین کا اس کے پڑوسیوں اور دنیا کے ساتھ اس کا ریکارڈ اس کی عیارانہ ومکارانہ سوچ اور دوغلے پن عکاسی کرتا ہے۔یہ سخت ریمارکس پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو ایٹمی اسلحہ بنانے اور ڈلیوری میں چینی مدد ،پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی راہ میں رکاوٹ بننے اور 3488کلومیٹر طویل ایل او سی اور جنوبی بحیرہ چین پر اکڑ مکڑ دکھانے کے حوالے سے کیے گئے ہیں۔
چینی وزارت خارجہ نے وزیر خار جہ ایس جے شنکر کے اس موقف پر کہ ہندوستان کبھی کسی اتحاد کا حصہ رہا ہے اور نہ ہی بنے گا پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ چین امید کرتا ہے کہ ہندوستان اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا رہے گا اور ٹھوس اقدامات سے علاقائی امن و استحکام کا تحفظ کرے گا اور بین الاقوامی امور میں تعمیری کردار ادا کرے گا۔
ہندوستان میں اس بیان کو خاص طور پر لداخ سیکٹر میں ہندوستانی علاقہ میں چینی در اندازی کی کوشش کے بعد ہندوستان کے امریکہ کی جانب بڑھتے میلان اورٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ہندوستان کی حمایت کے ببانگ دہل اعلان پر چین کی تشویش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔وزارت خارجہ نے چین کے بیان کا کوئی جواب نہیں دیا۔قومی سلامتی کے ایک منصوبہ ساز نے کہا کہ چین کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کو لداخ میں چینی در اندازی کی کوششوں کو بھول کر آگے بڑھنا چاہئے۔
اس نے اس وقت بھی جب وہ ہندوستان کو ایک پٹی ایک راستہ پراجکٹ میں شریک کرنے کی کوشش کی تھی کچھ اسی قسم کی بات کہی تھی۔اور کہا تھا کہ یہ ایک ربط سازی پراجکٹ ہے اور اگر یہ پٹی پاکستان میں مقبوضہ علاقوں سے گذرتی ہے تو ہندوستان کو اس کا برا نہیں منانا چاہئے۔یا لداخ میں ہندوستانی علاقہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے کے بعد یہ کہنا جکہ ہندوستان کو سرحدی تنازعہ کو 100بلین ڈالر کی دو طرفہ تجارت پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہئے۔
وہ ویتنام اور فلپائن کے ساتھ، جو 20سے زائد ان ملکوں میں سے ہیں جن کے ساتھ چین کا علاقائی تنازعہ ہے،برہموس اور پرتھوی میزائل کی فراہمی کے ہندوستان کے معاہدے پر دھمکیوں کے تیر چلاتا ہے لیکن وہ اسے جائز سمجھتا ہے اپنے چمچے ملک پاکستان کو لمبی دوری تک مار کرنے والے ایٹمی میزائل بنانے میں مدد ، جے ایف17جنگی جہاز اور مسلح ڈرون سمیت دیگر اسلحہ فراہم کر ے۔
آزاد خارجہ پالیسی سے متعلق چینی تلقین چین کی منافقت اور دوغلے پن کی عکاسی کرتی ہے: ہندوستانی عہدیدار
