ہندوستان کی جانب سے دفعہ370ختم کرنے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے فروری کے اوائل میں کشمیر پر تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی)کی کونسل کا اجلاس طلب نہ کرنے کی پاکستان کی درخواست منظور نہ کیے جانے کے حوالے سے ایک ٹی وی انٹرویو میں سعودی عرب کو کافی برا بھلا کہا۔قریشی نے ایک ٹی وی چینل کو اپنے انٹرویو میں کہا کہ اگر او آئی سی نے کشمیر پر اپنے رکن ممالک کے وزاراءخارجہ کونسل کا اجلاس نہیں بلا یا تو پاکستان کو مجبوراً ان اسلامی ممالک کا اجلاس بلانا پڑے گا جو کشمیر کے معااملہ پر اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور ستم رسیدہ کشمیری مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر تمام حدیں پار کر گئے اور کہا کہ ”آج ان پاکستانیوں کو جو ہمیشہ مکہ مدینہ کے لیے جان قربان کرنے تیار رہتے ہیں،سعودی عرب کی ضرورت ہے کہ وہ کشمیر معاملہ پر ایک قائدانہ رول ادا کر ے۔ اگر سعودی عرب کلیدی کردار ادا نہیں کرنا چاہتا تو مجھے وزیر اعظم عمران خان سے کہنا پڑے گا کہ سعودی عرب ساتھ ہو یا نہ ہو آپ پہل کریں۔ سعودی عرب واحد ملک نہیں ہے جس سے قریشی کو شکایت ہے ۔انہوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ نہ دینے کے لیے متحدہ عرب امارات کو بھی سخت سست کہا۔ پاکستان کا اظہار مایوسی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ گذشتہ سال پاکستان نے اسلامی ممالک کے کوالالمپور اجلاس میں ،جس میں امیر قطر، ترک صدر رجب طیب اردوغان اور صدر ایران حسن روحانی شریک تھے، شرکت نہیں کی۔ترکی پہلا ملک تھا جس نے یہ کہا کہ پاکستان نے سعودی عرب کے دباؤ میں شرکت نہیں کی۔
ترکی کے سرکاری میڈیا نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت کی تو وہ چالیس لاکھ پاکستانی ملازمین کو پاکستان واپس بھیج کر ان کی جگہ بنگلہ دیشیوں کو رکھ لے گا۔تاہم سرکاری طور پر پاکستان نے کہا کہ امت میں ممکنہ تقسیم سے متعلق بڑے مسلم ممالک کے تشویش کو دور کرنے میں وقت لگے گا۔اور وہ امت کے اتحاد کے لیے کام کرتا رہے گا۔یہ ستم ظریفی ہے کہ وہی پاکستان جو کبھی خود کو ”اتحاد “ کا علمبردار کہتا تھا آج کشمیر کے معاملہ پر امت میں پھوٹ ڈالنے پر تلا بیٹھا ہے ۔یہ کشمیر ایجنڈے پر بین الاقوامی حمایت حاصل نہ کرپانے کے باعث پاکستان کی جھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ کا مظہر ہے۔ پاکستان شاید سعودی عرب کے ذریعہ تاخیر سے ادائیگی کی بنیاد پر تیل کی فراہمی خاموشی سے روک دینے والے فیصلے سے مزید تلملایااور بوکھلایا گیاہوگا۔سعودی عرب نے2018میں اس وقت پاکستان کی مسیحائی کی تھی جب اس نے پاکستان کو واجب الادا قرضے کی پریشانی سے نکالنے کے لیے سالانہ 3.2ارب ڈالر کا تیل تاخیر سے ادائیگی کی سہولت کے ساتھ دینے پر اتفاق کر لیا تھا جو کہ 6.2ارب ڈالر کے پیکیج کے ایک جزو تھا۔باقی تین اراب ڈالر نقد قرض تھا۔سعودی عرب نے دیر سے ادائیگی کی سہولت یکم جولائی2019سے تین سال تک کے لیے بڑھا دی تھی اوراس سال مئی میں اس کی تجدید ہونا تھی۔تاہم سعودی عرب نے ،جو پاکستان کے رویہ سے بہت بدظن ہو گیا تھا، شاید اسے منسوخ کر دیا۔علاوہ ازیں پاکستان کا ترکی، ملیشیا اور ایران کی جانب جھکاو¿ نیز چین پر اس کے بڑھتے اقتصادی و اسٹریٹجک انحصار سے سعودی عرب مزید ناراض ہو گیا۔
سعودی عرب کا بدلہ دراصل قریشی کی بڑ ہانکنے کی وجہ سے ہے۔ پاکستان سے مبینہ طور پر کہا گیا کہ وہ قرضہ واپس کرے اور یہ بھی خبریں ہیں کہ پاکستان نے چین سے آسان شرح سود پر ادھار لے کر پہلے ہی ایک ارب ڈالر سعودی عرب کو وپاس کر دیا ہے۔پاکستان مبینہ طور پر اس قرض پر 302فیصد سود ادا کر رہا ہے اور اب اس نے کندن انٹر بینک آفرڈ ریٹ (لیبور) کے توسط سے چین کے اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن فارن ایکسچنج (سیف) سے مع ایک فیصد ،جو موجودہ شرحوں کے حساب سے1018فیصد ہوتا ہے،ایک بلین قرض مزید لیا ہے۔پاکستان مزید2بلین ڈالر کی سعودی عرب کو واپسی کے لیے اسی قسم کی آسان شرح سود پر مزید قرض لے سکتا ہے۔پاکستان کے دیگر محسن متحدہ عرب امارات بھی پاکستان کو مالی امداد بہم پہنچانے کے وعدے سے مکر گیا ہے ۔ دسمبر 2018میں سعودی عرب کے دیھا دیکھی اس نے بھی پاکستان کو 6.2بلین ڈالر کا پیکج دیا تھا جس میں 3.2ارب ڈالر تیل سہولت کے لیے تھا۔ تاہم بعد میں اس نے اپنی مالی امداد میں تخفیف کر کے 2بلین ڈالر کر دی اور دیر سے ادائیگی کا منصوبہ ترک کر دیا۔پاکستان کی عرب ملکوں سے دوری اب مکمل ہوتئی نظر آرہی ہے کیونکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں مبصرین اسلامی ملکوں کے سربراہوقں کو منانے میں لگ گئے ہیں کہ وہ پاکستان کی حمایت کریں۔ اب یہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان عرب دنیا کی حمایت سے محروم ہو چکا ہے۔ بہرحال آنے والے دنوں میں پاکستان کا سعودی عرب کے سہارے سے محروم ہوجانا طے ہے جس سے اس کی مالی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
(مضمون نگار اشوک بیہوریا ،ساؤتھ ایشیا سینٹر ایم پی آئی ڈی ایس اے کے سینیر فیلو اور کو آرڈی نیٹر ہیں)
