گل بخشالوی
حسین ابن علی نواسہ رسول ،فرزند عظیم دختر نیک اختر حضرت فاطمة الزہرہؓ وہ حسین جس کا نعرہ تھا میں راہِ حق میں دین مصطفےٰ کی بقا کیلئے شہید ہو جاﺅں گا اس لےے کہ میں دین مصطفےٰ کا علمبردارہوں میں باطل کی بالادستی کو کسی صورت بھی تسلیم نہیں کروں گا ،ظلم وستم کو روکنا امام حسین کا مقصد ِحیات تھا یہی وہ مقصد ِ حقیقی تھا جس کے حصول کی خاطر میدانِ کربلا میں آپ اپنے جانثار دین مصطفےٰ کے سرفروش اور خاندان اہل بیت کےساتھ ایثار قربانی کا عظیم ترین مظاہرہ کرتے ہوئے معرکہ حق وباطل کے آخری لمحوں میں اپنے شیر خوار کو بھی راہِ حق میں قربان کر گئے ۔حضرت امام حسین کی شہادت اور واقعہ کربلا میں حضرت امام حسین کا عظیم الشان کردار دنیائے انسانیت میں ظلم وجبر کی بالادستی کے خلاف اسلامی انقلاب کا سرچشمہ بن گیا ۔حضرت امام حسین کے حسن ِکردار کا اعتراف کرتے ہوئے مہاتما گاندھی آزادیہندوستان کیلئے اپنے احساسات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ”میں ہندوستان کیلئے کوئی نئی خبر نہیں لایا بلکہ میرا کردار آئینہ ہے میرے اُن مطالعات وتحقیقات کا جو میں دلاورانِ کربلا کی تاریخ حیات کے بارے میں کیا ہے اگر ہم آزادی کے خواہشمند ہیں تو آزادی کیلئے ہمیں وہی راستہ اختیار کرنا ہوگا اُسی نقش ِقدم پر چلیں گے جسے حسین ابن علی نے اختیار کیا!“شہادت ِحسین کو صدیاں بیت چکی ہیں لیکن حسین ابن علی شہیدان واسیرانِ کربلا کے ایثار قربانی کی یاد آج بھی تازہ ہے 10محرم الحرام 6ھ کو میدانِ کربلا میں رونما ہونے والا معرکہ حق وباطل نے عالم کائنات کی ہر قوم اور تہذیب کو اپنے ثمرات سے مستفید کیا ۔
شہادت حسین ہر دور ِانسانیت کیلئے درسِ حیات ہے کردار حسین کے مومن تو کیا غیر مومن بھی معترف ہیں اور کردار حسین کو کلمات ِتحسین سے نوازاجاتا ہے اس لےے کہ حسین عظیم ترین مجاہد اسلام سے اور میدانِ کربلا میں اہل بیت کیساتھ بے مثال شہادت سے دین مصطفےٰ کے علمبرداروں کو آبر و اور حرمت بخشی گئی اس لےے جہانِ بشریت کے آپ عظیم رہنما کہلائے ۔حضرت امام حسین میدانِ کربلا میں معرکہ حق وباطل کے لمحوں میں دشمنوں کے محاصرے میں کربلا کے صحرا میں باغ دین مصطفےٰ کے ایک مہکتے گلاب تھے آپ اور خاندان اہل بیت کے سامنے موت کھڑی نظر آرہی تھی بعد از شہادت خاندان اہل بیت پریزیدی ظلم وستم کے شدید خطرات آپ محسوس کررہے تھے اس کے باوجود آپ سرزمین عراق کے سورج کی جلا دینے والی شعاعوں کے نتیجے اپنے رفقاءکےساتھ اپنے پسینے میں مہک رہے تھے ۔آپ صرف ایک مظلوم اور ستم رسیدہ شہید ہونے کی وجہ سے خلائق کے دلوںکا مرکز نہیں بلکہ آپ کی حیات میں آپ کا حسن کردار ذاتی خصوصیات اوصاف وکمالات بھی آپ کے کردار کی بلندی پر دھمک رہے تھے اس لےے کہ آپ کی شریانوں میں مصطفےٰ کا لعاب دہن خون بن کر دوڑ رہا تھا آپ حضرت فاطمتہ الزہرہ کی گود میں زندگی کے حسن سے سرفراز ہوئے آپ نے امیر المﺅمنین حضرت علی جیسی عظیم المرتبت ہستی کی رہنمائی اور حضرت امام حسین کےساتھ زندی کے بہترین ایام گزارے امام حسین بے شک معرفت ِخدا کا ایک بڑا ذریعہ اور اس کی ایک نشانی تھے ۔آپ کے اوصاف اور کمالات دیکھ کر اللہ رب العزت پر ایمان پختہ ہوتا ہے ۔
حضرت امام حسین کی دریا دلی دیکھئے ،میدانِ کربلا میں یزیدی فوج کے سالار اپنے لشکر کیساتھ میدانِ کربلا میں آیا تو گرمی کی شدت سے انسان تو کیا جانوروں کی زبانیں تک شدت تشنگی سے باہر نکلی تھیں ۔حضرت امام حسین نے یہ منظر دیکھا آپ سے اُن کی تشنگی نہ دیکھی گئی آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا لشکر کو پانی پلاﺅ ،صحرائے کربلا میں پانی کی نایابی کے باوجود حُر کی قیادت میں دشمنانِ دین کیساتھ اُن کے جانوروں کو بھی پانی پلایا گیا۔یہ وہ لشکری تھے جنہوں نے معرکہ حق وباطل میں حضرت امام حسین کیساتھ قافلہ حسین کے معصوم بچوں خواتین اور رفقاءتک کو تین دن تک پیاسا رکھا آپ نے جامِ شہادت نوش کیا لیکن دشمن کو طعنہ نہ دیا کہ کل ہی تو ہم نے تم کو اور تمہارے جانوروں کوپانی پلایا تھا۔میدانِ کربلا میں نواسہ رسول کےسامنے زندگی آخری لمحوں پر تھی لیکن ذاتی زندگی کو دین حق پر قربان کر نے کیلئے آپ اپنے رفقاءکیساتھ میدانِ کربلا میں ڈٹے رہے ۔امام حسین اگر چاہتے تو اپنی زندگی کیساتھ قافلہ حسین بھی بچ سکتا تھا صرف ایک نگاہ بلند کی ضرورت تھی ۔قہرِ خداوندی سے یزیدی لشکر کھائے ہوئے بھوسہ کی طرح ہوسکتا تھا یزیدی لشکر تباہ ہو سکتا تھا لیکن امام حسین کی فکر میں یہ مقامِ رضا کے منافی تھا میدانِ کربلا میں آفتاب کی تمازت سے تپتے رہ گزر پر شہادت کی کھٹن اور صبر آزما منزلوں پر حسین اپنے رفقاءکیساتھ صبر ورضا کے امتحان میں کامیاب وکامران دکھائی دئےے کسی فرد ِواحد نے میدانِ کربلا میں امام حسین کو کسی سے شکوہ کرتے یا دشمنانِ دین سے درخواست کرتے نہیں دیکھا نواسہ رسول نے میدان حق میں دین مصطفےٰ کی بقااور اسلامی اقدار کے تحفظ کیلئے عظمت کے مینار ،جرات وشجاعت کی رہتی دنیا تک مثال بن کر یزیدیوں پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑے تھے آپ حق وصداق اور دین کی سربلندی کیلئے عظیم تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنے وجود پر تیروں کے بے شمار زخم کھا کر گھوڑے سے زمین پر آئے اور اپنے عظیم مقصد کی کامیابی میں اپنے پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہوگئے ۔
جب تک آپ کے ہاتھ میںتلوار تھی یزیدی قریب نہیں آسکتے تھے خوفزدہ تھے یزیدی انتظار میں تھے ،آپ سجدہ ریز ہوئے تو حسین کی گردن پر تلوار چلی ،حسین میدانِ کربلا کے آخری شہید ہیں ۔واقعہ کربلا تاریخ انسانیت کا عظیم سانحہ ہے جس میں نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین نے اپنے ساتھ اپنے اعزاءواقارب اور جان نثاران دین کی عظیم قربانیاں دے کر دین مصطفےٰ کا پرچم قیامت تک کیلئے سربلند کردیا ۔واقعہ کربلا عالم انسانیت کیلئے چراغ ہدایت ہے امام حسین عقیدت واظہار کا مرکز ہے سرور کائنات کے بارے میں یہ حدیث زبان عام ہے جس کی میں سرور ِکائنات نے فرمایا ”حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں“سرکارِ دوعالم نے مسجد نبوی میں دورانِ خطبہ امام حسین کو اپنے زانو ئے مبارک پر بٹھایا اور صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا ،اے لوگوپہچان لو یہ میرا نواسہ حسین ہے جو اس سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا جو اس سے دشمنی کرے گا وہ مجھ سے دشمنی کرے گا ۔حضرت امام حسین نے یزیدی بیعت سے انکار کر کے دین مصطفےٰ کو بچانے کیلئے شہادت عظمیٰ پر فائز ہوکر دنیائے انسانیت کو درس دیا کہ حق وصداقت کیلئے باطل کے سامنے سر کٹایا جاسکتا ہے جکایا نہیں جاسکتا ،امام حسین نے میدانِ کربلا میں دسویں محرم کی شب آشور ا پہ جانثاروں سے فرمایا میں جانتا ہوں کہ کل اس مقام پر میری شہادت ہوگی وقت قریب آچکا ہے رات کی تاریکی ہے میں اجازت دیتا ہوں جو شخص جہاں چاہے واپس جاسکتا ہے مگر آپ کے وفاداروں نے آپ کی سرداری میں شہادت کے رتبے کو ترجیح دیتے ہوئے کہا ۔اے فرزند ِرسول اگر ہم قتل ہوکر دوبارہ بھی زندہ ہوجائیں تو بھی آپ کی نصرت اور رفاقت سے منہ نہیں موڑیں گے حضرت امام حسین کے ساتھیوں نے عہد وفا کرکے قیامت تک کیلئے بہترین مثال قائم کر دی ۔
