افغانستان کے اول نائب صدر امر اللہ صالح کی جانب سے ڈورنڈ لائن کا معاملہ اٹھانے اور موسم گرما میںپشاور کو اسلامی جمہوریہ کو قومی دارالخلافہ بنانے کی وکالت کرنے کے دو روز بعد سابق انٹیلی جنس سربراہ کو پرکابل میں بم حملہ کر دیا گیا جس میں ان کے تین محافظین تن زخمی اور متعدد راہگیر ہلاک یا زخمی ہوگئے ۔یہ آئی ای ڈی مواد سڑک کے نیچے سے گذر ررہی ایک بند نالی میں بچھایا گیا تھا جس پر سے صالح کے قافلہ کو نائب صدر کے دفتر جاتے ہوئے گذرنا تھا۔
آئی ای دی مواد اس قدر طاقپتور تھا کہ قریبی دکانوں میں رکھے گیس سلنڈر تک پھٹ گئے۔غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق اس دھماکے میں کم ا زکم15افراد ہلاک اور زائد از 50افراد زخمی ہوئے ہیں۔حملہ کے بعد جاری ایک ویڈیو پیغام میں صالح ے کہا کہ حملہ صبح ساڑھے سات بجے اس وقت کیا گیا جب وہ اپنے دفتر جارہے تھے۔انہوں نے وہاں موجود سیکورٹی اہلکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جس مقام پر یہ خود کش حملہ کیا گیا وہ ایک تنگ راستہ تھا۔
صالح پر ، جو ایک سابق انٹیلی جنس سربراہ ہیں، اس سے قبل بھی کئی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ایک نہایت ہلاکت خیز قاتلانہ حملہ گذشتہ سال ان کے دفتر پر کیا گیا تھا اس میں بھی امر اللہ صالح بال بال بچ گئے لیکن20افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اور اب کو یہ قاتلانہ حملہ کیا گیا وہ ایسے وقت میںکیا گیا ہے جب نہایت قدامت پسند سنی پشتون تنظیم طالبان امریکہ کی حمایت سے قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں بین افغان امن مذاکرات سے ،جن کا طویل عرصہ سے انتظار کیا جارہا ہے،شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
صالح نے 7ستمبر کو ٹوئیٹر کے توسط سے کہا تھا کہ ”قومی حیثیت کا کوئی افغان سیاستداں ڈورنڈ لائن معاملہ کو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو مذاکرات اور قرار داد کا متقاضی ہے۔ہم سے اس امر کی توقع رکھنا کہ ہم اسے مفت مٰں ہدیہ کر دیں گے غیر حقیقی ہے۔ پشاور کو افغانستان کے سرمائی دارالخلافہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سفارتکار متعین افغانستان اور ہندوستان کے طابق صالح پر حملہ کی شک کی سوئی حقانی نیٹ ورک کی جانب گھومتی ہے کیونکہ زردان قبیلہ کا،جو عالمی دہشت گرد گروپ سے وابستہ ہے ،کابل شہر پر غلبہ ہے اور آج صبح یہ حملہ کرانے والے پاکستان مقیم ہیں۔
حقانی نیٹ ورک کا سربراہ سراج الدین حقانی نائب امیر ہے اور طالبان کا مسلح بازو ہے۔جہاں ایک جانب دو عشروں تک افغناستان میں عملی طور پر پوری سرگرمی سے ملوث رہنے کے بعد افغانستان چھوڑنے کے امریکی فیصلہ کا ہر جانب سے خیر مقدم کیا جارہا ہے یکطرفہ اقدامات کر کے سیاسی و آئینی نظام پر طالبان کو شامل کرنے کے فیصلہ سے خطہ میں ہر طرف تشویش ہے۔اس قسم کی وارداتیں ایک با رپھر یہ بات منظر عام پر لاتی ہیں کہ اپنے عوامی ا عتراضات کے برعکس نہ تو تنظیم اور نہ ہی پاکستان میں اس کے باوردی کفیل کسی قسم کی گنجائش کے موڈ میں ہیں۔
طالبان نے مذاکرات کے لیے اپنے وفد قطر نہیں بھیجا ہے وہ منشیات کے معروف افغان سوداگر حاجی بشیر نورزئی کی رہائی کے ، جنہیں 2005میں گرفتار کیا گیا تھا،منتظر ہیں۔طالبان کو حکومت افغانستان کے روبرو بٹھانے میں زبردست دلچسپی رکھنے والا امریکہ نور زئی اور گوانٹے نامو بے میں قید دیگر طالبان قیدیوں کی رہائی کی درخواست پر عمل آوری کرنے پر غور کر رہا ہے۔ افغان سیاست داں رحمت اللہ نبی نے ٹوئیٹرکے توسط سے کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ طالبان حاجی بی نورزئی کی رہائی ہونے تک دوحہ میں مذاکرات شروع نہیں کریں گے۔
