For real peace, Afghanistan needs a Plan B

واشنگٹن پوسٹ میں بالمقابل ادارتی صفحہ شائع ایک مضمون میں اشرف غنی نے اس بات کو اجاگر کیا کہ وہ اپنے ملک کے حوالے سے کیا سوچ رکھتے ہیں۔ ”ایک خود مختار، متحدہ، جمہوری افغانستان جو خود ، خطہ اور دنیا کے لیے امن سے رہے اور گذشتہ دو عشروں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ایسے ملک کے لیے جس نے برسوں حالت جنگ اوربدحالی و پریشانیوں میں گذارے ہوںیہ ایسا مقصد ہے جو بہت جلد پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس سال کے اوائل میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہوئے امن معاہدے کو کامیاب کرنے کی کوشش میں ان کی حکومت نے 5000سے زائد طالبان قیدی رہا کر دیے جو اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ غنی اپنے وعدے کو پورا کرنے میں کس حد تک جا سکتا ہے۔طالبان نے قابل موازنہ کوئی مراعات نہیں دیں۔طالبان کا تسلسل کے ساتھ یہی موقف رہا ہے کہ بس کسی طرح افغانستان میں اقتدار پر قبضہ ہو جائے۔گروپ کو پاکستان کی جو سرپرستی حاصل ہے وہ ان کا حتمی مشترکہ مقصد ہے جو افغانستان کے مقاصد کے قطعاً برعکس ہے ۔پاکستان کی افغانستان پر اثر و رسوخ مضبوط کرنے اور طالبان کادیگر نظریاتی یا سیاسی مقابلہ آرائی کی دیگر اقسام کو غیر قانونی قرار دے کر ایک خالص ا اسلامی ملک کے قیام کی نیت در اصل افغانستان میں نیشنلسٹ حکمرانی کے بجائے اسلامی حکومت قائم کرنے کی خواہش کی عکاس ہے اور اس ضمن میں پاکستان اور طالبان کے درمیان ایسا گہرا اور خونی تعلق باعث حیرت نہیںہے ۔اگر غنی کے خواب کی تکمیل کا کوئی موقع ہے بھی تب بھی افغانستان کو پلان بی ، گذشتہ دو عشروں کے دوران قائم ہونے والی جمہوریت کا تحفظ کر نے والی حکمت عملی، کی ضرورت ہے۔ورنہ ماضی کے تاریک ایام کی واپسی ناگزیر ہو جائے گی۔طالبان آج اپنے وجود کے لئے پاکستان پر انحصار کر رہے ہیں ، جبکہ پاکستان کا ایک ایسی ریاست کے قیام کے لیے، جو اقتصادی ،سیاسی ،فوجی اور بین الاقوامی معاملات میں اس کے ماتحت رہے عہد برقرار ہے۔ ان کے مفادات کے مشترکہ توازن کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پاکستان نے طالبان کو اسٹریٹجک فوجی ، معاشی اور سیاسی مدد فراہم کرکے ایک تحریک کے طور پر اس کی نشوو نما کی اور بالآخر ستمبر 1996 میں کابل کے تخت پر انہیں جلوہ افروز کرا دیا ۔ طالبان کو ”متحدہ جمہوری افغانستان “کے تصور کے ساتھ سامنے لانے کے لیے تحریک کی بنیادی تنظیم نو اور ان کے داغدار کردارکو مکمل طور پر فراموش کرنا ہوگا نیز پاکستان کو بھی افغانستان کے ساتھ ایک ”موکل ریاست“ جیسے سلوک میں زبردست تبدیلی لانا ہوگی۔کابل میں حال ہی میں منعقد ایک پروگرام میں تقریری کرتے ہوئے افغانستان کے اول نائب صدر اور خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ امر اللہ صالح نے تقریری کرتے ہوئے کہا کہ ”طالبان نے ہمارے لیے سوائے تباہی کے کیا ہی کیا ہے؟“ بدھ کے روز صالح پر ،جو کہ طالبان کے کٹر مخالف ہیں، ناکام قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں کم و بیش 10افراد ہلاک ہو گئے۔ اس کی کسی نے بھی ذمہ داری قبول نہیں کی اور طالبان نے بھی اس مین اپنا ہاتھ ہونے کی تردید کی۔ لیکن جس انداز کا یہ حملہ تھا وہ طالبان ہی انجام دیتے ہیں۔ اور ان کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ پہلے حملہ کرو اور پھر تردید کر دو اور پھر بھی سب کو امن کی راہ پر چلنے کا کہتے رہو۔

افغانستان سے واپسی کی امریکہ کی خواہش نے طالبان کو پوری قوت سے حملے کرنے کا کھلی راہ دے دی ہے۔ کیونکہ امریکہ کہہ چکا ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے طالبان پر دباو¿ ڈالنے کی منشا نہیں رکھتا۔اکتوبر2001میں بر سر اقتدار آنے کے بعد عام افغانوں کے ساتھ طالبان کی بربریت سے پورا ملک واقف ہے اور انہیںیہ خوف دامنگیر ہے کہ اگر وہ دوبارہ واپس آئے تو انتقام لیں گے۔ر پارلیمنٹ نے جس سے میں نے ملاقات کی انتباہ دیا کہ” قطع نظر کسی امن معاہدے کے ملک میں بغاوت کے خاتمہ کی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔“ 20سال اقتدار سے بے دخل رہنے کے بعد بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ طالبان نے اپنی روش ترک کر دی ہوگی۔ ایک بھی طالبان ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے رویہ میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اکتوبر2016میں کندوز میں ان کی بربریت ،ماو¿رائے عدالت ہلاکتیں، اجتماعی جنسی زیادتیاں، ایذا رسانی، لوٹ پاٹ اور ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعہ گھر گھر تلاشی کی خبریں آتی رہی ہیں۔اور جن علاقوں میں طالبان کا غلبہ ہے وہاں یہ وارداتیں عام ہیں۔طالبان انتخابات اور جوابدہی میں یقین نہیں رکھتے۔طالبان کے امیر ہبت اللہ اخونزادہ خالص اسلامی حکومت کی گردان کرتے رہتے ہیں لیکن اس کی کبھی وضاحت نہیں کی ”خالص “ کی کیا تعریف ہے۔ان کے جانشینوں نے بھی انتخابات کی پر تشدد مخالفت کی اور ووٹروں کو ڈرایا دھمکایا۔ میں نے ستمبر 2019میں جن ووٹروں سے بات کی ان میں سے کچھ نے کہا کہ ووٹ ڈالنا ان کا فرض ہے کچھ نے کہا کہ وہ طالبان کے خلاف مزاحمت کا ووٹ ڈال رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے افغان اپنے اوپر مسلط کیے جانے سے زیادہ اپنا رہنما خود منتخب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔2014اور2018کے انتخابات میں بھی افغانوں نے انہیں خیالت و نظریات کا اظہار کیا تھا۔انتخابی جمہوریت طالبان کے اسلامی امارات یا ملک کے نظریہ کے عین منافی ہے۔ جس قسم کے حالات ہیں اور اس میں حکومت افغانستان ، طالبان اور پھر پاکستان ملوث ہو رہا ہے حقیقی امن مذاکرات کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اور اگر بین افغان مذاکرات شروع ہو بھی گئے تووہ قیام امن کے لیے نہیں ہوں گے۔طالبان کے نظریہ کے مطابق ان مذاکرات کا مقصد امریکہ کے افغانستان سے انخلا کی اس انداز سے راہ ہموار کرنا ہے جس سے ان کو افغانستان پر مکمل کنٹرول کرنے کا موقع مل جائے ۔اس سال نومبر تک امریکی فوجوں کی تعداد گھٹ کر 5000سے کم ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی طالبان امریکہ کو موجودہ افغان حکومت کو گرانے پر مجبور کریں گے اور جنگ بندی کے بدلے شریک اقتدار معاہدے کی آڑ میں ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دلائیں گے۔ اور موجودہ حکومت کو بے دخل کر کے ملک میں ایاس خلا پیدا کردیں گے جس میں طالبان ملک کا طاقتور ترین ہونے کا درجہ حاصل کر لے۔ایسی صورت حال میں دیگر بارسوخ شخصیات بھی طالبان کے ساتھ شریک اقتدار ہوجائیں گی اس لیے نہیں کہ وہ شخصیات طالبان کو پسند کرتی ہیں بلکہ وہ محض اپنی بقا کے لیے ایسا کریں گی۔

دراصل امریکہ طالبان معاہدہ سے ایک پل تیار ہوا ہے جو طالبان کو حکومت ا فغانستان کو گرانے کے مقصد سے اس کا محاصرہ کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔موجودہ امن عمل طالبان کے حق میں جاتا نظر آرہا ہے اور اپریل2021تک امن عمل جاری ر کھنا طالبان کے مفاد میں ہے تاکہ اس وقت تک امریکہ افغانستان سے اپنی واپسی کے ان وعدوں کوپورا کر دے جو دوحہ معاہدے میں اجاگر کیے گئے ہیں۔صدر غنی کی ٹیم چاہے گی کہ طالبان ایڈمنسٹریشن کو تسلیم کریں، 2004کے آئین کا احترام کریں، گذشتہ دو عشروں کے دوران سماجی، سیاسی اور اقتصادی کامیابیوں کو تسلیم کریں ، حقوق خواتین کا تحفظ کریں ، جنگ بندی کا اعلان کریں اور قومی انتخابات کے توسط سے حکومت میں شامل ہوں۔آخر انجام یہ ہو گا کہ بین افغان مذاکرات بے مقصد ہوجائیں گے کیونکہ جو واقعات ہو رہے ہیں وہ کسی بھی فریق کی مذاکراتی پوزیشن پر حاوی ہوجائیں گے ۔ اس وقت تک مغلوب فریق کو بچانانے میں بہت دیر ہوچکی ہوگی۔تو افغانستا کو بچانے کے لیے اتحادیوں کو کون سا ”پلان بی “ بنانا ہو گا؟ہنگامی منصوبہ بندی اس امر کی متقاضی ہے کہ افغانستان کو اس یقین دہانی کا اعادہ کرائے جانے پر توجہ مرکوز کی جائے اسے بچان ضروری ہے جس کے لیے کئی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے تو امریکہ طالبان امن معاہدہ پر عمل آوری روکی جائے کیونکہ طالبان نے ثابت کردیا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرنے کا اپنا واحد وعدہ پورا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ دوئم یہ کہ نومبر میں امریکہ میں انتخابات کے بعد دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ جو امن معاہدہ انتخابی فائدہ اٹھانے کے لیے کیا گیا ہے ناکام ہو جائے گا۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جو بھی جیتے گا اس کو اسے برقرار رکھنے کے لیے ازسرنو منظوری لینا ہوگی۔تیسرے یہ کہ طالبان پر زبردست بین الاقوامی فوجی دباو¿ اور بچی کھچی طاقت کو برقرار رکھنا جوغیر معمولی جرمانہ عائد کر سکتا ہو کیونکہ طالبان اپنے حملوں میں شدت لا سکتے ہیںاور مزید خطرناک کر سکتے ہیں۔اگر امریکہ افغانستان سے نکل جاتا ہے تو دوحہ معاہدے کی رو سے کای جرمانہ بھگتنا ہوگا۔ اول تو امریکہ واپسی سے افغانستان میں شدت پسند اسلامی تنظیموں کو توانائی ملنا متوقع ہے۔ جو افغانستان میں کسی سوپر پاور کی ایک اور شکست کے طور پر دیکھیں گی۔اور سمجھیں گی کہ یہ ان کا سخت نظریہ اور مذہب ہی تھا جس نے امریکہ کو انخلا پر مجبور کر دیا۔ دوسرے یہ کہ امریکی واپسی سے وسیع پیمانے پر نقل مکانی شروع ہو جائے گی اور لاکھوں افغان اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے وسطی ایشیا یا ایران ہی نہیں بلکہ یورپ فرار ہوجائیں گے۔ تیسرے یہ کہ ملک میں سنگین بحران سے طویل خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جس سے دو عشروں کے دوران ہزاروں فوجی و غیر فوجی جانی و اربوں ڈالر کے نقصان کے بعد جو کامیابیاں ملی ہیں وہ سب تباہ ہو جائیں گی۔اگر امریکہ نکل جاتا ہے اور اپنی سیاسی، فوجی اور مالی حمایت ختم کر دیتا ہے تو افغانستان تو باقی رہے گا لیکن 40سال سے جاری جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ طالبان پر پوری طرح قابو نہ پالیا جائے یا انہیں شکست فاش نہ دے دی جائے۔کوئی بھی غیر ملکی طاقت اس وقت تک مداخلت نہ کرے جب تک کوئی اتنا بڑا واقعہ نہ ہوجائے کہ مداخلت کرنا ناگزیر ہوجائے۔یہ سب کچھ جو کسی دہشت پسند تنظیم سے، جو کسی روز اپنے دفاع کے نام پر دوبارہ حملہ کر سکتی ہے، جیتا گیا ہو کھونے کے قابل نہیں ہے ۔