Why China's Xi Jinping is the world's most dangerous

حالات حاضرہ میں اتھل پتھل کے لیے ڈونالڈ ٹرمپ کو مورد الزام ٹہرایا جانا بہت آسان ہے۔امریکی صدر کی کثیر اقوامی اداروں کے ساتھ تجارتی جنگ اور عداوت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے بلکہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے جاری عالمی نظام کو روز روشن کی مانند کھلا چیلنج ہے۔شاید چین میں ،جہاں صدر شی جن پینگ ملک کی کئی عشروں سے جاری سیاسی، اقتصادی اور خارجہ پالیسیاں چلانے والے مرکزی اصولوں کو اسی طرح تیزی کے ساتھ ڈرامائی انداز سے نئی سمت لے جارہے ہیں، زیادہ دور رس اثرات کی حامل ، لیکن کم واضح ،بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔شی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی تبدیلیاں چین کو ایسی سوپر پاور میں تبدیل کر دینے کے لیے ضروری ہیں جس سے چین عالمی سطح پر اپنا قد اور وزن بڑھانے کے لائق ہو جائے گا۔ لیکن جتنی پیچیدگیاں ہیں ان سے عالمی امور کو کوئی شکل دینے میں کئی برس درکار ہوں گے۔پھر بھی اکثر یورپی دارالخلافوں میں شی نے جو کچھ باقی چھوڑا ہے وہ بہت کم تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ براعظم کی اقتصادیات اور سلامتی کے مفادات کے لیے ہی نہیں بلکہ ان نہایت پسندیدہ اور ان نظریات کے لیے بھی، جو انہیں عزیز ہیں، خطرہ ہے۔

شی ، جو ایک سینئر کمیونسٹ پارٹی سیاستداں کے بیٹے ہیں، اپنے پیشروو¿ں کی طرح اصلاحات کے وعدے وعید اور پر امن ترقی پر زور دینا جیسی باتیں بہت کرتے ہیں۔لیکن وہ جس چین کی قیادت کرتے ہیں وہ 1990اور2000کے مقابلہ، جب امریکہ اور یورپ امید رکھتے تھے کہ چین کو تنگ کر کے مغرب کے تشکیل دیے گئے عالمی نظام میں بہت آسانی او رپھر آخر کار جمہوری طریقہ سے شامل کر لیا جائے گا، قطعاً مختلف ملک ہے۔ شی نے منڈی نواز لبرلائزئیشن روک کر اس کی جگہ انہوں نے مغربی مد مقابل کمپنیوں کو جدید ترین صنعتوں سے نکال کر چینی کمپنیوں کا تحفظ اور نشو نما کرنے کے مقصد سے تیار کیے گئے حکومتی کنٹرول والے پروگرموں کو مضبوط کیا ہے۔شی نے چینی تجارت اور فنانس کو عالمی سطح پر اس طرح فروغ دینے کی کوشش نہیں کی جیسی ان کے پیش روو¿ں نے کی تھی۔وہ ایسی زیادہ محدود پالیسیوں کو ترجیح دیتے ہیں جو خود کفالت رخی ہوں یا ون بیلٹ ون روڈ بنیادی ڈھانچہ جیسا کوئی پراجکٹ ہو جسے وہ زیادہ آسانی سے کنٹرول کر سکتے ہوں۔

شی نے حکومت کے اندر بھلے ہی بہت زیادہ طاقتور نہ سہی لیکن متعدد سیاسی حریفوں یا ایسے رہنماو¿ں کو جو ان کے لیے خطرہ بن سکتے تھے نکال باہر کیا یا حاشیے پر ڈال دیا۔اور ماو¿زے تنگ کی ”لٹل ریڈ بک“ کے دور کے بعد نادیدہ واحد شخصیت کا بت تیار کیا۔چینی آئین سے صدر کی میعاد کی حد ختم کر کے شی نے خو دکو تاحیات حکمرانی کے اعزاز سے سرفراز کر لیا۔شی کے دور نے حقوق انسانی کے حوالے سے چین کی پہلے ہی سے نہایت خراب شبیہ کو اور بھی مسخ کر دیا۔شی نے سماج و معاشرے کے ہر پہلو پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیے جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کیا۔ کم و بیش دس لاکھ ایغورمسلمانوں کو مغربی چین میں واقع جبری مزدوری کیمپوں میں ڈالنا دور حاضر میں انسانیت کی بے پناہ پامالی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

بیرونی منظرنامہ پر شی خواہ ایران ، وینیزویلا،بیلا رس اور کہیں کی بھی حکومتوں کو اپنی حمایت دے کر یا صحافیوں، ماہرین تعکیم اور بیرونی کمپنیوں کو چین پر تنقید کرنے سے روک کرآمریت کو مزید جارحانہ انداز میںپھیلا رہا ہے ۔ہانگ کانگ میں قومی سلامتی قانون نافذ کر کے ، جو کہ چینی حکومت کو اپنی سابق نوآبادیات حوالے کرنے والے یو کے کے ساتھ معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے،چین نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ شی جمہوری قدروں کو ملک سے بے دخل کرنے پر بین الاقوامی مذمت کا خطرہ مول لینے کے خواہاں ہیں۔ اور پھر بھی بے تحاشہ ثبوتوں کے باوجود کہ شی کا نیا چین مغرب کے سیاسی و اقتصادی مفادات کے لیے طویل مدتی خطرہ ہیں زیادہ تر یورپی لیڈران اس کے ساتھ اسی طرح ہیں جیسے1999میں تھے۔ پولیٹیکو کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں جرمنی کے وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمیر نے ہانگ کانگ میں چینی کریک ڈاو¿ن پر اپنی حکومت کے رویہ کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ” میں ہمیشہ اس کا قائل رہا ہوں کہ تبدیلی تجارت سے لائی جا سکتی ہے۔“شاید آلٹمیر اپنے مصمم آئیڈیل ازم کے باعث قابل تعریف ہیں ۔لیکن ان کا تبصرہ ان کا بھولا پن، حالات حاضرہ سے ان کی حیرت انگیزلاعلمی اور سب سے بدتر بات زبردست بد کاری جو اعلیٰ نسل والی سوچ کے حامل جرمن لوگ انسانی آزادی پر مزید ووکس ویگنز فروخت کر دینے کی ذہنیت ثابت کرتا ہے ۔


قطع نظر اخلاق کے، چین کے فرسودہ تصور سے چمٹ کر یورپ خود کو شی کے پیش کردہ عالمی نظام میں کلیدی کردار ادا کرنے سے خود کو محروم کر رہا ہے۔ یورپ چین اور امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات کا شکار ہو رہا ہے اور وہ چکی کے دو پاٹ کے درمیان پسنے کے مصداق شش و پنج میں مبتلا ہے کہ ان دونوں میں سے کس کا انتخاب کیا جائے ۔امریکہ کی چین سے بڑھتی کشیدگی میں امریکی پالیسی ساز پریشان ہیں کہ ان کے دیرینہ حلیف یورپی ممالک ان کا ساتھ نہیں دے رہے ۔یورپی لیڈروں کو اس خوف نے مفلوج کر دیا کہ اگر انہوں نے چین کے حریف کا انتخاب کیا تو ایک منتقم المزاج کمیونسٹ حکومت چین میں ان ملکوں کے اقتصادی مفادات پر اپنا عتاب نازل کر کے ان سے انتقام لے سکتی ہے۔ لیکن یہ قطعاً غلط سوچ ہے کیونکہ ہر لحاظ سے یورپ جس سمت یہ نئی دنیا جارہی ہے اس پر زبردست طور پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔یورپی یونین کے 27ممالک چینی اقتصادیات کے لیے اہمیت کے حامل امریکہ کو حریف بناتے ہیں۔ پھر بھی یورپ ہم آہنگ نہ ہوپانے کے باعث کام لینے کے طریقہ سے ہاتھ دھورہا ہے۔ جس سے دیو پیکر ٹیلی مواصلاتی کمپنی ہواوے اور ایک پٹی ایک راستہ پراجکٹ جیسے معاملات پر براعظم کو منقسم کر رہا ہے۔اب یورپی ممالک کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ غیر متعین سمتوں کی جانب دنیا کے رخ اختیار کرنے میں وہ کیا کردار ادا کریں۔

شاید 21ویں صدی کی جنگ آزادی کے لیے وہ اپنی کمر کسیں گے۔(کچھ یورپی ممالک ایک موقف اختیار کرنے تیار ہیں۔ یہ دیکھیے کہ ایک چھوٹے سے چیک جمہوریہ نے تائیوان میں ایک وفد بھیجنے پر چین کی دھمکی کے خلاف کیسا رویہ اختیار کیا) یا ہو سکتا ہے کہ یورپ امریکہ اور چین کے درمیان ایک درمیانی راستہ نکالے یا ایک پل بن جائے۔لیکن ان سوالات کو جواب دیے بغیر یوں ہی تشنہ چھوڑ دیا جائے تو دوسروں کے ذریعہ ترتیب دیے گئے ایک نئے عالمی نظام میں یورپ کمزور اور غیر محفوظ ہو جائے گا۔ پدرم سلطان بود کے مصداق ماضی میں گم رہنا یورپ کومستقبل میں ہونے والے حشر سے نہیں بچائے گا۔