Pashteen: PTM Hurt Pakistan Military's Terror-Sponsoring Industry

پاکستانی فوج کی جانب سے گذشتہ ہفتہ عائد کیے گئے اس الزام کے جواب میں کہ پاکستان کی پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) افغانستان اور ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے مالی امدا د پا رہی ہے ، اس کے رہنما منظور پشتین نے ملک کے نہایت با اختیار ادارے پر الزام لگایا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ان کے خطہ میں ایک منفعت بخش کاروبار میں بدل رہی ہے۔پشتین نے وی او اے کو ایک اسلام آباد سے ایک ٹیلی فونی انٹرویو دیتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستان کی فوج پی ٹی ایم کے بارے میں عوام میں غلط فہمیاں پھیلا کر انہیں گمراہ کر رہی ہے۔ پشتین نے کہا کہ یہ الزام بے بنیاد ہے کہ ہم غیر ملکی اداروں سے فنڈ حاصل کر رہے ہیں۔ وہ اس کا ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔ایک انگریزی کہاوت ہے کہ اگر آپ انہیں قائل نہیں کر سکتے تو شش و پنج میں ڈال دیں۔ فوجعین اس کہاوت کے مطابق ہمارے خلاف افواہیںپھیلا رہی ہے۔ فوج اسلام آباد میں انتہاپسندوں کو تربیت دیتی ہے اور پھر میرے ملک اور دنیا ے دیگر ممالک میں حملے کراتی ہے۔چونکہ پی ٹی ایم ایک فعال تحریک کے طور پر ابھر رہی ہے فوج زیادہ عرصہ تک آزادی سے اپنی حرکتوں اور سازشوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتی اور اس کے نام نہاد کاروبار کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔گذشتہ دوشنبہ کو انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل اور فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پی ٹی ایم پر الزام لگایا تھا وہ افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی (این ڈی ایس) اور ہندوستان کی ریسرچ اینڈ انالئسز ونگ(را) سے فنڈ حاصل کر رہی ہے اور اندرون پاکستان ان کے ایجنڈوں کے مطابق کام کر رہی ہے۔

غفور نے پوچھا ” پی ٹی ایم کی ویب سائٹ پر انہیں ایک نمبر ملا ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم پشتونوں سے موصول رقومات کا علم ہوتا ہے ۔لیکن ہمیں بتایا جائے کہ آپ کو اپنی تحریک چلانے کے لیے این ڈی ایس (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی) سے کتنی رقم ملتی ہے ؟ اسلام آباد میں پہلے دھرنے (احتجاجی مظاہرہ) کے لیے را(ہندوستان کی ریسرچ اینڈ انالائسز ونگ) نے کتنا پیسہ دیا؟ غفور نے یہ بھی کہا کہ ”ہم قبائلی علاقوں کے عوام کے لیے سب کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن جو لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ان کا وقت پورا ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم اراکین غیر ملکی ایجنٹوں کی چاکری کر رہے ہیں۔لیکن پشتین نے الزام لگایا کہ ان کی تحریک کونہیں بلکہ پاکستان کی فوج و غیر ملکوں سے فنڈ ملتا ہے۔وہ پی ٹی ایم کا وجود ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ انتہاپسندی کی آبیاری کر نا جاری رکھ سکیں اور پھر یہاں وہاں حملے کرائیں اور ان حملوں سے ڈرا کر بین الاقوامی برادری سے فنڈ حاصل کریں۔پشتین نے مزید کہا کہ ہم نے نہیں بلکہ یہ پاکستانی فوج ہی ہے جسے غیر ملکیوں سے 33بلین ڈالر رقم ملی ہے۔پاکستان نے 2002سے اب تک امریکی امداد کی صورت میں 33بلین ڈالر وصول کیے ہیں۔ جس میں کولیشن سپورٹ فنڈ میں، جو کہ خطہ میں امریکی قیادت والی انسدا دہشت گردی اور انسداد بغاوت کارروائیوں میں ساتھ دینے میں ہونے والے اخراجات کی حلیفوں کو ادائیگی کے لیے امریکی وزارت دفاع کے پروگعرام کا ایک جزو ہے، 14بلین سے زائد ڈالر بھی شامل ہیں۔ غفور نے پاکستان کی پشتون آبادی کو تلقین کی کہ پشتین اور ان کی تحریک جیسی ملک دشمن طاقتوں اور عناصر کے بہکاوے اور ورغلانے میں نہ آئیں ۔ اور مشتعل نہ ہوں۔غفور نے مزید کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گی جب تک کہ آپ کے مسائل حل نہیں ہو جاتے۔ہمیں امید ہے کہ آپ لوگ ان پر (پی ٹی ایم) کوئی توجہ نہیں دیںگے اس کے بجائے ان ملک دشمن طاقتوں کے خلاف مزاحمت کریں گے۔لیکن پشتین اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ وہ ملک کے آئین کا احترام کرتے ہیں اور فوج کی عادت ہے کہ وہ ہر اس شخص اور تنظیم پر جو آئینی حقوق کے لیے لڑائی لڑتے ہیں ”ملک دشمن طاقتیں“ قرار دے دیتی ہے۔

پشتین نے مزید کہا کہ جو بھی شخص ان پر (فوج) تنقید کرتا ہے وہ ملک دشمن کہلایا جاتا ہے۔ جو آئین کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں ملک مخالف قرار دے دیا جاتا ہے ۔جو ایک جمہوری ملک کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں غدار وطن اور ملک دشمن کہا جانے لگتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ”و¿پ مجھے یہ بتائیںہ کیا لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ضروری کارروائی کرنے کا مطالبہ غیر آئینی ہے؟ ہم تو محض یہ کہتے ہیںکہ اگر کوئی جرم کا مرکتب ہوتا ہے تو اسے سزا دی جائے اور اگر کوئی بے قصور ہے تو اسے رہا کیا جائے۔ یہ غیر آئینی کیسے ہوا۔پشتون، جو افغانستان میں سب سے بڑا نسلی گروپ ہے لیکن پاکستان میں اقلیت ہے، کچھ عرصہ سے محسوس کر ہے ہیں کہ انہیں پاکستان میں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جنوری2018سے اندر ہی اندر پک رہا لاواکراچی میں دکاندار سے ماڈل بننے والے ایک27سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود کی پولس کے ہاتھوں موت سے پھوٹ پڑا ۔پولس نے اس وقت اپنی صفائی میں کہا تھا کہ محسود پاکستانی طالبان کے ساتھ فائرنگ کے تبادلہ کے دوران مارا گیا ہے لیکن داخلی انکوائری سے اس انکشاف کے بعد کہ محسود کا کسی انتہا پسند گروپ سے تعلق نہیںتھا،پولس کے دعو ے سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ۔اس ہلاکت سے کئی روز تک احتجاج کا بازار گرم رہا اور پشتون میں ہفتوں احتجاجی مارچ ہوتے رہے۔اسی واردات نے پشتون تحفظ تحریک کو جنم دیا۔جس نے نسلی پشتونوں کے لیے بنیادی حقوق کے مطالبہ میں ملک گیر پیمانے پر اس وقت سے اب تک بے شمار ریلیاں نکالیں۔پی ٹی ایم جبری گمشدگی، ماؤرائے عدالت ہلاکتوں کے خاتمہ ، فوجی چوکیوں کو ہٹانے اور ایک صادق و مصالحتی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ ان تشویشوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔تاہم پشتین نے پاکستانی حکومت کے اس دعوے کی تردید کی اور کہا کہ ان کی تحریک ریلیاں کرتے رہنا جاری رکھے گی اور حکومت پر دباؤ ڈالتی رہے گی کہ وہ ان مطالبات کو پورا کرے۔پشتین نے پاکستانی خاص طور پر مقامی میڈیا کی جانبداری کا شکوہ کرتے ہوئے کہ اس نے کبھی بھی گروپ کی سرگرمیوں کو کور نہیںکیا اس لیے وہ سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر متحرک رہے۔

پشتین نے دعویٰ کیا کہ ایک ماہ پہلے خیبر ٹی وی کو انہوں نے ایک انٹرویو دیا تھا اور جب چینل نے اسے ٹیلی کاسٹ کرنا چاہا تو فوجی اس چینل کے اسٹوڈیو جا دھمکے اور جس کمپیوٹر میںوہ انٹرویو ریکارڈ تھا اسے اپنے قبضہ میں کر لیا۔ لیکن خٰبر ٹی وی کے ایڈیٹر نے اس کی تردید کی ہے۔خیبر ٹی وی کے گروپ ایڈیٹر حسان خان نے وی او اے سے بتایا کہ یہ سرتاپا جھوٹ اور من گھڑت ہے ، کوئی پاکستان فوجی ہماری حدود میں داخل ہوا نہ کسی نے اسٹیشن کو مجبور کیا کہ وہ انٹرویو ٹلی کاسٹ نہ کیا جائے۔حسان نے کہا کہ انٹرویو اس لیے ٹیلی کاسٹ نہیں کیا گیا تھا کیونکہ پاکستانی فوجی عہدیداروں نے ہم سے رابطہ کر کے مطلع کیا تھا کہ نسلی یا مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کرنے والےکسی کو بھی میڈیا پلیٹ فارم مہیا کرنا حکومتی پالیسی کے سراسر منافی ہے۔پشتین نے کہا کہ فوج اس تحریک کو کچلنے کے لیے انہیں اور ان کے احباب کو ہراساں کر رہی ہے۔لیکن انہوں نے عہد کیا کہجب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے ان کی تحریک جاری رکھی جائے گی۔یہاں تک کہ فوج نے اپنی تازہ پریس کانفرنس میں ہمیں انتباہ دیا ۔ہم عدم تشدد کے قائل ہیں اور کوئی تشدد نہیں کیا ۔ہم مستقبل میں بھی غیر متشدد رہیں گے ۔ ہم انسانیت میں یقین رکھتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرتے ہیں ۔