Pakistan to make Gilgit-Baltistan a province: A move to please China

گلگت بلتستان ،جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے،عنقریب پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے کی راہ پر ہے۔اس کا سب سے پہلے اعلان ملک کے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے کیا۔

وزیر موصوف نے کہاتھا کہ وزیر اعظم عمران خان جلد ہی خطہ کا دورہ کریں گے اور اس سلسلہ میں باضابطہ اعلان کریں گے۔ انہوں نے گلگت بلتستان کے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ”تمام فریقوں سے بات کرنے کے بعد وفاقی حکومت نے اصولی طور پر فیصلہ کیا کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق تفویض کر دیے جائیں۔“ ”ہماری حکومت نے یہاں کے لوگوں سے کیا گیا وعدہ پورا کرنے کا فیصلہ کیا ہے“۔

جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ در حقیقت پس پردہ رہ کر اس عمل کی قیادت کر رہی ہے،اصل ذمہ داری تو پاکستانی فوج نبھا رہی ہے اور وہی اس تبدیلی کے اقدام کو آگے بڑھا رہی ہے ۔اور اس کا اعتراف اس وقت کیا گیا جب پاکستانی میڈیا نے پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا اور دیگر سینئر فوجی افسروں کے ساتھ حزب اختلاف کے متعدد اراکین پارلیماں کی ڈنر ملاقات کی رپورٹنگ کی۔اس میٹنگ کا مقصد گلگت بلتستان میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر تبادلہ خیال کرنا اور خطہ کی ہئیت بدلنے کے لیے راہ ہموار کرنا اور اسے قومی سلامتی کا ایک معاملہ کے طور پر دیکھا جانا تھا۔تاہم یہ خفیہ ملاقات ،جو کہ جی ایچ کیو کے نام سے معروف پاکستان فوجی ہیڈ کوارٹر میں ہوئی اب متنازعہ ہو گئی ہے کیونکہ کچھ ممتاز پاکستانی سیاستدانوں نے پارلیمنٹ کے بجائے جی ایچ کیو میں اس ملاقات کی قانونی حیثیت پر سوال کھڑے کر نے کے ساتھ ساتھ اس ملاقات کو ملک کی سیاست میں فوجی مداخلت سے تعبیر کیا ہے۔

اس الزام لگانے میں پیش پیش رہنے والوں میں ایک سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی، جو فی الحال لندن میں خود جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں، صاحبزادی و پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این ) کی نائب صدر مریم نواز بھی ہیں۔ جب ان سے ڈنر ملاقات کے حوالے سے استفسار کیا گیا اور ان کا نظریہ معلوم کیا گیا تو وہ وہ اس کی سخت مخالفت کرتی نظر آئیں۔ ”مجھے کسی ڈنر کا علم نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ ڈنر نہ ہو لیکن میں نے اس ملاقات کے بارے میں سنا ہے۔ جہاں تک میں سمجھتی ہوں یہ ملاقات گلگت بلتستان پر تبادلہ خیال کے لیے تھی جو کہ ایک سیاسی معاملہ ہے ایسا معاملہ جو عوام کے نمائندوں کا ہے اور وہی اس پر تبادلہ خیال کرنے اور اسے حل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔یہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں جی ایچ کیو میں نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ نہیں جانتیں کہ ان کے والد مسٹر شریف کو ، جن کی پارٹی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی قائد ہے،اس ملاقات کا پہلے سے علم تھا یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ” لیکن ایسے معاملات پر نہ تو سیاسی قیادت کو بلانا چاہئے تھا اور نہ ہی اسے اس پر تبادلہ خیال کرنا چاہئے تھا۔“ جو بھی ان معالمات پر تبادلہ خیال کرنا چاہتا ہے اسے پارلیمنٹ میں آنا چاہئے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک سیاسی طوفان کھڑا کر کے ، جس سے ملک میں سیاسی تباہی و بربادی کا عمل جاری رہے گا،گلگت بلتستان کی ایک صوبے میں تبدیلی پر بحث کا اصل موضوع پس پشت ڈال دیا گیا۔

گلگت بلتستان کو اس کی حیثیت کی صراحت نہ کرنے کی وجہ سے طویل عرصہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اسے آئینی و انتظامی طور پر فراموش کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہو گیا۔جب1947میں کشمیر تنازعہ شروع ہوا تو گلگت بلتستان کو خطہ کشمیر کا ایک حصہ مانا گیا لیکن 1970کے عشرے یں ملک کی حکمراں جماعت نے اسے کشمیر سے الگ کاٹنے کا فیصلہ کیا اور اسے ایک وفاق کے زیر انتظام علاقہ میں بدل دیا۔ جس پر پاکستان کا سیدھا کنٹرول تھا۔اس وقت سے خطہ میں مقامی سیاست کو حاشیہ پر ڈال دیا گیا۔

ایک مقانمی صحافی یمان شاہ نے ،جو سیاسی معاملات دیکھتے ہیں اور خود بھی ایک سیاسی کارکن ہیں ،کہا کہ” گلگت بلتستان میں ہم نے تمام قانونی اور انتظامی تبدیلیاں دیکھیں ، سارے فیصلے پاکستان میں کیے جاتے ہیں اور انہیں ہم پر تھوپ دیا جاتا ہے۔“

شاہ نے کہا کہ واحد مقامی سیاسی پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور اب صرف پاکستان مقیم پارٹیوں کا خطہ میں وجود ہے۔”حکومت نے بلوارستان نیشنل فرنٹ پر پابندی عائد کر دی اور جو بھی اس پارٹی کے لیے کام کرتا ہے اسے غیر ملکی ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے، یہ ایسی چال ہے جسے کسی بھی مخالفت کو خاموش کرنے کے لئے بآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔“

ایک اور سیاسی کارکن بابا جان کو ایک شخص اور اس کے بیٹے کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں حصہ لینے پر پاکستان انسدا دہشت گردی قوانین کے تحت2011میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ان دونوں باپ بیٹے کو تودہ گرنے کے حادثہ پر ، جس نے ان کے گاؤں کو تباہ و برباد کر دیا تھا،معاوضہ کے مطالبہ میں کیے گئے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران پولس نے مبینہ طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

شاہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نہ صرف زور زبردستی سے گلگت بلتستان میں مقامی سیاست پر کنٹرول کر رہا ہے بلکہ کسی کشمیری پارٹی کو خطہ میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اور پاکستان میں پالیسی ساز بھی خطہ سے باہر کے لوگوں کو وہاں بساکر آبادیاتی تبدیلی لا رہے ہیں۔

شاہ نے کہا کہ ”وہاں بود وباش اختیار کرنے کے لیے پشتونوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اور پھر سنی مکتب فکر کے متعدد مذہبی گروپوں کو وہاں بھیجا جا رہا ہے۔لیکن ایسی آبادیاتی تبدیلی خطہ میں فرقہ پرستی اور مسلکی و نسلی تشدد کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں یہاں شیعہ مسلمانوں کی ہلاکتوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا اور کچھ کو شبہ ہے کہ اس قتل و غارتگری میں حکومت پاکستان کا ہاتھ ہے۔
گکگت بلتستان کے ایک سماجی کارکن سینگے حسنین سیرنگ نے ، جو جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں، کہا پہلی بار پاکستان میں شیعہ سنی کشیدگی 70کے عشرے میں ہوئی ۔ یہ بھی ایسے ہی وقت ہوئی تھی جب پاکستان اور چین کو جوڑنے والی قراقرم شاہراہ بنائی جا رہی تھی۔اس وقت حکومت نے ایسا بیج بویا تاکہ وہ تحفظ کے بہانے اند داخل ہو سکے۔

ایک حالیہ ویڈیو انٹرویو میں مسٹر سیرنگ نے وضاحت کی کہ پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے بھی 80کے نعشرے میں شیعہ سنی جذبات بھڑکائے کیونکہ اس وقت کی فوجی حکومت شاہراہ سے متصل کچھ گاؤں ہٹانا چاہتی تھی۔ان گاوؤں میں مقامی شیعہ آباد تھے جو وہاں سے منتقل نہیں ہونا چاہتے تھے، اس لیے سنی انتہاپسندوں کو استعمال کیا گیا اور انہوںنے ان پر حملے کر کے گاوؤں کو لوٹ لیا۔

اس وقت سے شیعہ سنی کشیدگی بڑھتی ہی چلی گئی۔2012میںایک بس کو جس میں 20شیعہ تھے سنی انتہاپسندوں نے روک لیا اور ان تمام شیعہ لوگوں کی شناخت کر کے ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔لیکن انٹیلی جنس افسروں نے ان کشیدگیوں کو کوئی اہمیت نہیں دی شاید اس لیے کہ کہیں چین، جس نے کہ خطہ میں کثیر سرمایہ کاری کی ہے ناراض نہ ہوجائے۔ خطہ میں تعینات ایک فوجی عہدیدار نے کہا کہ ”کشیدگیاں ماضی میں تھیں ۔ اب زیادہ امن ہے۔ ہمیں معلوم ہے پہلے مسلکی مسائل تھے لیکن ہم ان سے نمٹ رہے ہیں۔“
اس سے قبل چینی سرمایہ کاری کان کنی اور نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچوں تک محدود تھی۔ لیکن اب وہ اپنے پنجے اور زیادہ گاڑنا چاہتا ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے قرض کا جال ہے جس کا بڑا حصہ گلگت بلتستان علاقہ سے اپنا را ستہ نکالنے کے لیے ہے۔لہٰذا کچھ کا خیال ہے کہ چین پاکستان کو ترغیب دے سکتا ہے کہ وہ خطہ کو اپنے اندر ضم کر لے تاکہ اس کی سرمایہ کاری کا تحفظ ہو سکے۔

لندن میں ایک یونیورسٹی سے وابستہ ایک پاکستانی ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹر عائشہ صدیقی کا کہنا ہے کہ” سی پیک کا مغربی راستہ گلگت بلتستان سے ہو کر جاتا ہے اورایسا لگتا ہے کہ چین کشمیر تنازعہ کے حوالے سے پاکستان کو پیش رفت جاری رکھنے اور جوں کی توں حیثیت قبول کر نے کا مشورہ دے رہا ہے ۔ وہ سی پیک کے تحت تمام علاقوں کو پراجکٹ کے لیے سود مند طور پر استعمال کرنے کے لیے مضبوط کرنا چاہتا ہے۔

ڈاکٹر صدیقہ نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان کی فوج مسئلہ کشمیر ،جس میں گلگت بلتستان خطہ بھی ہے، فوجی کارروائی سے حل نہیں کر سکتی ۔لیکن اس کا انتباہ بھی ہے۔اگر پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے منصوبہ پر عمل آوری کر لیتا ہے تو پھر اس کے پاس ہندوستان کے اس عمل پر احتجاج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا جو اس نے اپنے زیر کنٹرول کشمیر کی حیثیت تبدیل کر نے کا کیاہے۔ ڈاکٹر عائشہ اگست2019کی اس کارروائی کا حوالہ دے رہی تھیں جس میں ہندوستان نے آئین میں دی گئی 370دفعہ کی تنسیخ کر کے جموں و کشمیر کو دومرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔