گذشتہ ماہ20ستمبر کو کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میںحزب اختلاف کی11جماعتوں کے درمیان اتحاد کے اعلان سے پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔اور اب عمران خان کو حزب اختلاف کی مشترکہ طاقت سے نمٹنا ہے۔یہ کانفرنس عمران خان کی سلیکٹڈ حکومت کے اقتدار سے بے دخل کرنے کے ایجنڈے کے ساتھ پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی ایم) کی تشکیل کے علاوہ لندن سے نواز شریف کی شعلہ بیان اور جارحانہ تقریر کے باعث بھی قابل ذکر ہے۔
نواز شریف نے کچھ سوال اٹھا دیے اور ایسی بات کہی جو مستقبل قریب میں پاکستانی سیاست پر چھا جائے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ ”ملک پر منتخب نمائندوں کی حکمرابنی ہونی چاہئے یا فوج کی۔“ حزب اختلاف عمران خان کی قیادت والی پاکستان تحریک انصاف حکومت کے خلاف کوئی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے گذشتہ دو سال سے جدو جہد کر رہی ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو 2019میں اسلام آباد میں حکومت وقت کے خلاف دھرنے میں تنہا چھوڑ دینا حزب اختلاف میں دراڑ کی واضح مثال ہے ۔
حزب اختلاف کو متحد کرنے کا ایک اہم پہلو ان کے رہنماو¿ں کے تئیں عمران خان کی عدم برداشت اور ان کا غرور و تکبر ہے ۔نتیجہ میں حزب اختلاف کے متعدد رہنماو¿ں کو یکطرفہ احتسابی معاملات میں مقدمات میں پھانس کر جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ایک اور اہم سبب یہ ہے کہ مارچ میں حزب اختلاف اکثریت سے محروم ہو جائے گی جس سے حکومت کی برطرفی کے مطالبہ پر زور ڈالنے کے لیے رہا سہا پار لیمانی موقع بھی ہاتھوں سے نکل جائے گا۔
کل جماعتی کانفرنس مین لندن سے اپنی ویڈیو تقریر میں نواز نے نہایت سخت لہجہ میں کہا تھا کہ’ ملک میں حکومت پر ایک حکومت ہے‘ اور حزب اختلاف ایک متوازی حکومت کے لاف لڑائی لڑ رہی ہے۔اے پی سی نے مطالبہ کیا کہ عمران خان حکومت فوری طور پر استعفیٰ دے دیں بصورت دیگر پی ڈی ایم تین مرحلہ کی حکمت عملی بنائے گی جس میں احتجاج اور ریلیاں ہوں گی جو جنوری میں اسلام آباد تک مارچ پر پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔
