Will Sudan recognize Israel?

یروشلم:(اے یو ا یس)ایک ایسے وقت میں جب سوڈان کی معیشت تنزلی کا شکار ہے، افراط زر بڑھ رہا ہے اور ملک بھر میں عذائی بحران کے بادل منڈلا رہے ہیں ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیلی حکومت کو یہاں (سوڈان) ایک موقع نظر آ رہا ہے۔سوڈان میں 18 ماہ قبل طویل مدت تک برسراقتدار رہنے والے عمرالبشیر کو عوامی احتجاج کے پیش نظر معزول ہونا پڑا تھا اور اس کے بعد سے سوڈانی عوام ملک میں جمہوریت کی بحالی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ایسے موقع پر اگر سوڈان اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو امریکہ اسے ’دہشت گردوں کی سرکاری طور پر سرپرستی کرنے والے ممالک‘ کی فہرست سے نکال دے گا۔ اور یہ ایک ایسا اقدام ہو گا جو ملک میں معاشی استحکام کا دروازہ کھولنے کا باعث بنے گا۔اسرائیل عرب ممالک کے قریب کیوں آنا چاہتا ہے؟عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروپوں نے سوڈان کو امریکہ، سعودی عرب، مصر، ایتھوپیا، یوگینڈا، کینیا اور دیگر مقامات پر دہشت گرد حملے کرنے کے اڈے کے طور پر استعمال کیا۔سنہ 1993 میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردی کے پہلے حملے کے بعد امریکہ نے سوڈان کو ’دہشت گردوں کا ریاستی سرپرست‘ قرار دیا تھا۔

بین الاقوامی سطح پر لگنے والی معاشی و دیگر پابندیوں اور پڑوسی ممالک کے فوجی دباو¿ نے سوڈان کو مجبور کیا کہ وہ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن اور دیگر جہادیوں کو ملک بدر کر دے۔عالمی دباو¿ کے پیش نظر اور خصوصاً 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے فوراً بعد ہی سوڈان کی سکیورٹی سروسز امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کی ایک قابل قدر شراکت دار بن گئیں۔اگچہ اِس شراکت داری کی بنیاد پر سوڈان کو دہشت گردی کے ریاستی سرپرست ملکوں کی فہرست سے نکال دینا چاہیے تھا لیکن کانگریس کے ارکان نے سوڈان میں خانہ جنگی اور انسانی حقوق کی پامالیوں سمیت دیگر بہت سی وجوہات کی بنا پر سوڈان کو اس فہرست میں شامل رکھا۔تاہم اس کے باوجود عمرالبشیر کی سربراہی میں سوڈانی حکومت نے مخفی انداز ایران اور حماس سے تعلقات قائم رکھے اور کم از کم دو مواقع پر اسرائیل کے جنگی طیاروں نے سوڈان کے بحر احمر کے ساحل پر گاڑیوں کے دو ایسے قافلوں پر حملہ بھی کیا جو مبینہ طور پر حماس کو دیے جانے والے اسلحے سے لدی تھیں۔

جب تک سوڈان بلیک لسٹ میں رہے گا ا±س پر مالی پابندیاں بھی عائد رہیں گی۔ ان پابندیوں کے باعث سوڈان میں کاروبار بند ہیں، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک مزید کوئی نیا پیکج بھی نہیں دے سکتے کیونکہ پرانے قرضے ادا نہیں ہو پا رہے ہیں۔ملک میں خوفناک حد تک بھوک کا راج ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 96 لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور یہ صورتحال کورونا وائرس اور ملک میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے مزید بگڑ گئی ہے۔ یہ ایسا بحران ہے جو کھانے کی فراہمی سے ختم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر معاشی معاونت کی ضرورت ہے۔حالیہ مہینوں میں سوڈان کو دہشت گردی کی فہرست سے نکالنے کا معاملہ آہستہ آہستہ کانگریس میں شروع ہوا تھا، جو مشرقی افریقہ اور یمن میں القاعدہ کے حملوں کے متاثرین کے لواحقین کی جانب سے معاوضے کے مطالبے کے بعد رک گیا۔

سوڈان 335 ملین کا ایک پیکچ دینے پر تھا لیکن ستمبر میں ڈیموکریٹک پارٹی کے دو سینٹرز چک شمر اور باب میننڈیز نے اس اقدام کے آگے بند باندھ دیا اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ یہ سینیٹرز نائن الیون متاثرین کے لیے کچھ بہتر پیکج چاہتے ہوں گے۔ان حالات میں ٹرمپ انتظامیہ سوڈان کو ان سب مسائل سے نکلنے کا ایک راستہ سجھا رہی ہے۔اگست کے آخر میں سوڈان کے دورے کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ملک کے نئے وزیراعظم عبدالا ہمدوک کو ایک تجویز پیش کی۔ تجویز یہ تھی کہ اگر سوڈان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو صدر ٹرمپ کانگریس کی اس رکاوٹ کو ختم کر دیں گے اور معاشی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اقدام کے بعد سوڈان ( جو عرب لیگ کا رکن ہے) ایسا کرنے کی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا عرب چوتھا ملک بن سکتا ہے۔اس سے امریکہ کے انتخابات سے ہفتوں قبل اسرائیل کے ساتھ عرب تعلقات معمول پر لانے کے لیے انتظامیہ کی مہم کو بڑا فائدہ حاصل ہو گا۔اسرائیل کو تسلیم کرنا سوڈان کے لیے ایک اہم اقدام ہو گا۔