Lebanon holds ‘productive’ sea border talks with Israel

بیروت :(اے یو ایس)لبنان اور اسرائیل کے درمیان سمندری حدود کے تعین کے سلسلے میں چوتھے دور کے مذاکرات میں جو لبنان کے شہر راس الناقورہ میں واقع یونیفل کے زیر انتظام مرکز میں امریکہ کی وساطت سے اقوام متحدہ کے پرچم تلے منعقد ہوئے، لبنانی وفد نے ایسے کاغذات اور دستاویزات پیش کیں جو تسلیم شدہ سمندری قانون کے مطابق لبنان کی سمندری پانی کی حدود میں اس کا حق ثابت کرتی ہیں۔ اس حوالے سے 1430 مربع کلو میٹر کا سمندری رقبہ لبنان کی ملکیت میں آتا ہے۔

تاہم فریقین کی جانب سے مذاکرات کی تفصیلات کو پردے میں رکھا جا رہا ہے۔ بات چیت میں اقوام متحدہ کے نمائندے اور امریکی سفارت کار جان ڈیروشر بھی شریک ہوئے ۔ 2011 میں اقوام متحدہ کو بھیجے گئے نقشے کے مطابق یہ مذاکرات 860 مربع کلو میٹر تک پھیلی ہوئی آبی سرحد کے حوالے سے جاری ہیں۔لبنان نے مذکورہ نقشے کو غلط تخمینے پر مبنی قرار دیا ہے۔ مذکرات میں لبنان اپنے پاس موجود نقشوں کی بنیاد پر 2290 مربع کلو میٹر رقبے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

لبنان کے مذاکراتی وفد میں چیف آف اسٹاف کے ڈپٹی برائے آپریشنز بریگیڈیر جنرل بسام یاسین، نیول کرنل مازن بصبوص، ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات کے ماہر ڈاکٹر نجیب مسیحی، پٹرولیم سیکٹر کی انتظامی کمیٹی کے رکن وسام شباط شامل ہیں۔ ان کے علاوہ مذاکرات میں لبنان میں اقوام متحدہ کے نمائندے نے بھی شرکت کی۔لبنان اور اسرائیل نے رواں ماہ کے آغاز پر اعلان کیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے زیر سرپرستی لبنان کے شہر الناقورہ میں مذاکرات کا عمل شروع کرنے کے حوالے سے مفاہمت تک پہنچ گئے ہیں۔

فریقین کے حرکت میں آنے کا مقصد بحیرہ روم کے علاقے میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع پر روک لگانا ہے۔ اس علاقے کا رقبہ تقریبا 860 مربع کلو میٹر ہے۔ یہ علاقہ زون 9 کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔

بیروت نے جنوری 2016 میں اس علاقے میں وسائل کی تلاش کے واسطے پہلا لائسنس جاری کیا تھا۔ اس اقدام نے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں واشنگٹن نے فریقین پر دباو¿ بڑھا دیا تا کہ وہ اپنے بیچ سمندری حد بندی کے واسطے مذاکرات کا عمل شروع کریں۔