حالیہ ہفتوں میں خاص طور پر اسرائیل کے ساتھ یو اے ای کے تعلقات باقاعدہ استوار ہوجانے پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سخت تنقید کے بعد پاکستان اور متحدہ عرب امارات ( یو اے ای)کے درمیان تعلقات میںتیزی سے کمی آتی نظر آرہی ہے۔ یہ بات اس معاملہ سے واقفیت رکھنے والے لوگوں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہی۔اس کی نہ صرف یو اے ای میں فلسطین نواز پاکستانی کارکنوں کی بلکہ دیگر پاکستانی رہائشیوں کی ،کبھی کبھار تو معمولی نوعیت کے جرائم میں، گرفتاری سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔
اس معاملہ سے وابستہ لوگوں نے بتایا کہ صرف ابو ظبی کی سوئیحان جیل میں ہی 5000پاکستانی قید ہیں۔بہت ممکن ہے کہ متحدہ عرب امارات ملازمت کے لیے امارات آنے کے خواہشمند پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا شرائط بھی سخت کر دے۔ انگریز ی روزنامہ ہندوستان ٹائمز کو علم ہوا ہے کہ پاکستانی تارکین وطن کو اقامہ کی تجدید کرانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کی ملک بدری کے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے تاہم اس ضمن میں بڑے پیمانے پر کوئی قدم اٹھائے جانے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔اور نہ ہی کوئی ایسی بات ابھی سامنے آئی ہے۔
ہندوستان ٹائمز کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی سفیر متعین ابو ظبی غلام دستگیر نے حال ہی میں یو اے ای کے حکومتی عہدیداروں سے اس سلسلہ میں ملاقات کی تھی لیکن ان سے کہا گیا کہ وہ اس معاملہ سے دور ہی رہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فوری سبب خان کے تبصرے ہو سکتے ہیں لیکن یو اے ای کے اقدامات2017میں قندھار حملہ کی، جس میں یو اے ای کے پانچ سفارت کار ہلاک ہوئے تھے ،تحقیقات سے برآمد نتائج کا مرہون منت ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یو اے ای کے تحقیقات کاراس نتیجے پر پہنچے کہ اس حملہ کے پس پشت حقانی نیٹ ورک کارفرما ہے اور پاکستان کی طاقتور سراغرساں ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) بھی اس میں براہ راست ملوث ہے۔تب پاکستان نے فوری ر دعمل ظاہر کرتے ہوئے اس حملہ کا ذمہ دار ایران کو ٹہرایا تھا۔
پاکستان کے ساتھ یو اے ای کے تعلقا ت پاکستان کے ساتھ سعودی وعرب کے تعلقات کی روشنی میں بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان سے اپنے تعلقات کی راہ میں حائل معاملات میں مغربی ایشیائی ملکوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی پاکستان کی کوششوں کو دونوں ملکوں کی جانب سے کوئی مثبت جوا ب نہیں ملا بلکہ اس پر دونوں ممالک نے سردمہری کا مظاہرہ کر کے پاکستان کو بہت مایوس کیا۔
جس پر تلملا کر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اگست میں سعودی قیادت والی تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی) کو وارننگ دے دی کہ اگر اس نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ370کی تنسیخ کے ہندوستانی فیصلے پر تبادلہ خیال کے لیے او آئی سی کی وزراءخارجہ کونسل کا ایک اجلاس نہ بلایا تو پاکستان مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کھڑے اسلامی ممالک کا اجلاس بلانے پر مجبور ہو جائے گا۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان قرضہ کی ادائیگی کے لیے بھی سخت مذاکرات رہے۔2018میں پاکستان کی مالی حالت خستہ دیکھ کر سعودی عب نے پاکستان کو 6.2بلین ڈالر کا پیکیج دیا تھا جس میں 3بلین ڈالر قرض اور3.2بلین ڈالر تیل کی تاخیر سے ادائیگی کے لیے تھا۔
قرضوں کی واپسی کا تقاضہ کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے پاکستان کو تیل ادھار دینے کی سہولت بھی واپس لے لی۔اور حال ہی میں سعودی عرب نے پاکستانی سفارت خانہ واقع ریاض سے کہہ دیا تھا کہ وہ 27اکتوبر کو ”کشمیر یوم سیاہ“ کے طور پر منانے کے لیے کوئی بھی عوامی تقریب منعقد کرنے سے باز رہنے کی ہدایت کی۔
یو اے ای اور سعودی عرب سے تعلقات بد سے بد ترہونے سے پاکستان، جو برسوں سے مغربی ایشیا کی مدد سے ہی زندہ ہے،بہت زیادہ پریشان اور فکر مند ہے ۔ان ممالک کی حمایت سے ہی پاکستان دہشت گرد گروپوں کی پرورش اور نگہداشت کرنے اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل میں انہیں استعمال کرنے کے وافر ثبوتوں کے باوجود خود کو تنہا کیے جانے سے بچائے ہوئے تھا ۔ان ممالک کی حمایت سے محرومی نہ صرف پاکستان کو اقتصادی طور پر لنگڑا لولا کر دے گی بلکہ بہت ممکن ہے کہ وہ بہت سے دوستوں یہاں تک کہ مسلم دنیا میں بھی اپنے دوستوں سے محروم ہوجائے۔
