ٹورنٹو:(اے یو ایس)معروف بلوچ انسانی حقوق کی رہنما کرےمہ بلوچ کو جنہون نے ایک بار وزیر اعظم ہند نریندر مودی کو راکھی بھیجی تھی، کناڈا مےں مردہ پا ےا گےا ۔ محترمہ کرےمہ بلوچ جو طلبا تنظیم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش اتوار کو برآمد ہوئی ہے۔ٹورنٹو میں مقیم صحافی صبا اعتزاز نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹورنٹو پولیس نے کریمہ بلوچ کے اہلخانہ اور ان کے ساتھ مقیم دوستوں کو ان کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کی لاش پولیس کی تحویل میں ہے جسے پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا۔خیال رہے کہ تاحال کریمہ بلوچ کی ہلاکت کی وجوہات سامنے نہیں آ سکیں۔ دوسری جانب کریمہ بلوچ کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد سے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ان کی ہلاکت کی تحقیقات مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’مجرموں کو کفیر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سماجی کارکن کریمہ بلوچ کی ہلاکت انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی فوری اور مو¿ثر تحقیقات ہونی چاہیے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔‘
پولیس کے مطابق کریمہ بلوچ کو آخری بار اتوار 20 دسمبر 2020 کو تقریباً دوپہر تین بجے دیکھا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھیں۔ٹورنٹو پولیس نے کریمہ بلوچ کی گمشدگی کے بعد ان کا مکمل حلیہ اور تصویر اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا تھا اور عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ تلاش میں پولیس کی مدد کریں۔کریمہ بلوچ کے قریبی ساتھی لطیف جوہر بلوچ نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے کریمہ بلوچ کی ہلاکت کی تصدیق کی اور لوگوں سے ان کے خاندان اور دوستوں کے دعا کرنے کی اپیل کی۔معروف بلوچ سیاسی کارکن اور بلوچ طلبا تنظیم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے برآمد ہوئی ہے۔ٹورنٹو میں مقیم صحافی صبا اعتزاز نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹورنٹو پولیس نے کریمہ بلوچ کے اہلخانہ اور ان کے ساتھ مقیم دوستوں کو ان کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کی لاش پولیس کی تحویل میں ہے سے پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا۔خیال رہے کہ تاحال کریمہ بلوچ کی ہلاکت کی وجوہات سامنے نہیں آ سکیں۔ دوسری جانب کریمہ بلوچ کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد سے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ان کی ہلاکت کی تحقیقات مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
بلوچستان کے شہر تربت میں 2005 میں کریمہ بلوچ پہلی مرتبہ سامنے آئی تھیں جب انھوں نے ہاتھ میں ایک لاپتہ نوجوان گہرام کی تصویر اٹھا رکھی تھی۔ یہ نوجوان ان کا قریبی رشتے دار تھا، نقاب لگائے ہوئے یہ نوجوان لڑکی کون تھی صرف چند ہی لوگ جانتے تھے۔ضلع کیچ کی تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ کے والدین غیر سیاسی تھے تاہم ان کے چچا اور ماموں بلوچ مزاحمتی سیاست میں سرگرم رہے ہیں، ایک چچا اور ماموں کی لاشیں مل چکی ہیں۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی ماں سمجھی جانے والی طلبہ تنظیم بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے تین دھڑوں کا جب 2006 میں انضمام ہوا تو کریمہ بلوچ کو سینٹرل کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا یہ سفر جاری رہا اور 2008 میں وہ جونیئر نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئیں جب بی ایس او کے سینیئر نائب صدر ذاکر مجید کی گشمدگی ہوئی تو کریمہ نے ان کا یہ عہدہ سنبھالا۔زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد انھوں نے چیئرپرسن کے طور پر بی ایس او آزاد کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں وہ بی ایس او کی پہلی خاتون چیئرپرسن تھیں۔ تنظیمی طور پر یہ ایک کٹھن دور تھا جب تنظیم کے مرکزی رہنماؤں کی جبری گمشدگی ہو چکی تھی، بعض افراد پوشیدہ ہو گئے تھے اور کچھ نے سرے سے ہی اپنی راہیں علیحدہ کر لی تھیں۔بلوچستان کے شہر تربت میں 2005 میں کریمہ بلوچ پہلی مرتبہ سامنے آئی تھیں جب انھوں نے ہاتھ میں ایک لاپتہ نوجوان گہرام کی تصویر اٹھا رکھی تھی۔ یہ نوجوان ان کا قریبی رشتے دار تھا، نقاب لگائے ہوئے یہ نوجوان لڑکی کون تھی صرف چند ہی لوگ جانتے تھے۔ضلع کیچ کی تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ کے والدین غیر سیاسی تھے تاہم ان کے چچا اور ماموں بلوچ مزاحمتی سیاست میں سرگرم رہے ہیں، ایک چچا اور ماموں کی لاشیں مل چکی ہیں۔بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی ماں سمجھی جانے والی طلبہ تنظیم بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے تین دھڑوں کا جب 2006 میں انضمام ہوا تو کریمہ بلوچ کو سینٹرل کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا یہ سفر جاری رہا اور 2008 میں وہ جونیئر نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئیں جب بی ایس او کے سینیئر نائب صدر ذاکر مجید کی گشمدگی ہوئی تو کریمہ نے ان کا یہ عہدہ سنبھالا۔زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد انھوں نے چیئرپرسن کے طور پر بی ایس او آزاد کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں وہ بی ایس او کی پہلی خاتون چیئرپرسن تھیں۔
تنظیمی طور پر یہ ایک کٹھن دور تھا جب تنظیم کے مرکزی رہنماؤں کی جبری گمشدگی ہو چکی تھی، بعض افراد پوشیدہ ہو گئے تھے اور کچھ نے سرے سے ہی اپنی راہیں علیحدہ کر لی تھیں۔واضح رہے کہ 37 برس کی کریمہ بلوچ کینیڈا میں پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم تھیں جبکہ سنہ 2016 میں بی بی سی نے کریمہ بلوچ کو دنیا کی ’سو بااثر خواتین‘ کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔بلوچستان کے شہر تربت میں 2005 میں کریمہ بلوچ پہلی مرتبہ سامنے آئی تھیں جب انھوں نے ہاتھ میں ایک لاپتہ نوجوان گہرام کی تصویر اٹھا رکھی تھی۔ یہ نوجوان ان کا قریبی رشتے دار تھا، نقاب لگائے ہوئے یہ نوجوان لڑکی کون تھی صرف چند ہی لوگ جانتے تھے۔ضلع کیچ کی تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ کے والدین غیر سیاسی تھے تاہم ان کے چچا اور ماموں بلوچ مزاحمتی سیاست میں سرگرم رہے ہیں، ایک چچا اور ماموں کی لاشیں مل چکی ہیں۔بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی ماں سمجھی جانے والی طلبہ تنظیم بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے تین دھڑوں کا جب 2006 میں انضمام ہوا تو کریمہ بلوچ کو سینٹرل کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا یہ سفر جاری رہا اور 2008 میں وہ جونیئر نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئیں جب بی ایس او کے سینیئر نائب صدر ذاکر مجید کی گشمدگی ہوئی تو کریمہ نے ان کا یہ عہدہ سنبھالا۔زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد انھوں نے چیئرپرسن کے طور پر بی ایس او آزاد کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں وہ بی ایس او کی پہلی خاتون چیئرپرسن تھیں۔ تنظیمی طور پر یہ ایک کٹھن دور تھا جب تنظیم کے مرکزی رہنماو¿ں کی جبری گمشدگی ہو چکی تھی، بعض افراد پوشیدہ ہو گئے تھے اور کچھ نے سرے سے ہی اپنی راہیں علیحدہ کر لی تھیں۔
