Canadian civil society condemns 'murder' of Baloch activist and demands a thorough investigation

کناڈیائی سول سوسائٹی نے کریمہ بلوچ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے قتل کی مزید مکمل تحقیقات کرائی جائے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ نیشنل پارٹی کناڈا، ورلڈ سندھی کانگریس کناڈا، پشتون کونسل کناڈا اور پی ٹی ایم کمیٹی کناڈا نے ایک مشترکہ بیان جاری کر کے کناڈا کے شہر ٹورنٹو میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہی کریمہ بلوچ کی المناک موت پر گہرے دکھ و صدمہ کا اظہار کیا۔

کریمہ بلوچ 20دسمبر2020 سے لاپتہ تھیں ۔ ان کی لاش ٹورنٹو جزیرے کے ساحل پر پڑی پائی گئی۔اگرچہ ٹورنٹو پولس کا کہناہے کہ کریمہ بلوچ کی موت کی ایک غیر مجرمانہ موت کے طور پر تحقیقات کی گئی ہے اور ایسی کوئی شہادت نہیں ہے جس سے اسے مشتبہ یا پراسرار حالات میں موت کہا جا سکے لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث پاکستانی حکام کی جانب سے جان سے مار ڈالنے کی دھمکیوں کے پیش نظر کریمہ بلوچ کے قتل کی مکمل تحقیقات کرانے کی ضرورت ہے۔کریمہ بلوچ حقوق انسانی کی کارکن کے طور پر پہچانی جاتی تھیں اور انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی چیر پرسن کے طور پر بھی ذمہ داری انجام دی تھی۔جب وہ پاکستان میں تھیں تو وہ بلوچستان میں فوج کی موجودگی ، بلوچ عوام کی جبری گمشدگی اور ان کے ماؤرائے عدالت قتل کے خلاف زبردست صدائے احتجاج بلند کرتی تھیں ۔

بی بی سی کی جانب سے2016میں انہیں 100سب سے زیادہ ”متاثر کن اور با رسوخ“ خواتین میں شامل کیا گیا تھا۔2016میں وہ پاکستانی حکومت کے ظلم و ستم سے بچنے اور جان کے خوف سے پاکستان چھوڑ کر کناڈا نقل مکانی کر گئیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم کریمہ بلوچ کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور ان کے قتل کی ہمہ پہلو جانچ کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔مجرموں کو کناڈا کے قانون کے مطابق کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے ۔بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ کریمہ بلوچ کے قتل نے اس بلوچ صحافی ساجد حسین کے وحشیانہ قتل کی یاد دلادی جسے پاکستان میں مسلکی و فرقہ وارانہ تشدد جرائم اور سر اٹھاتی بغاوت کی خبریں جاری کرنے کے بعد سویڈن میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہونا پڑا تھا اور ایک ماہ کی گمشدگی کے بعد 23اپریل2019کو ان کی لاش شمالی اسٹاک ہوم میں پائی گئی تھی۔

بلوچ پاکستان کے سب سے زیادہ ستم رسیدہ اور مظلوم لوگ ہیں۔ 2007سے ہزاروں بلوچ لاپتہ ہیں اور ان کا آج تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔صوبائی وسائل میں ایک بڑی حصہ داری حاصل کرنے کا مقصد پورا کرنے کے لیے 2005 میں صوبے میں فوجی کارروائی کی گئی۔ پاکستانی فوج کے مظالم سے بچنے کے لیے سیکڑوں بلوچ سیاسی لیڈران بلوچ چھوڑ کردیگر ممالک میں سیاسی پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ناراض لوگوں اور پاکستانی حکام کے نقاد وںکو، جو جلاوطن ہیں، ہمہ وقت جان کا خوف لاحق رہتا ہے کیونکہ انہیں جلا وطنی میں بھی نہ صرف تسلسل سے جان کی دھمکیاں مل رہی ہیں بلکہ ان پر حملے بھی کیے جارہے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیںکہ جلا وطن کارکنوں کے تحفظ کے لیے کچھ کرنے کی بین الاقوامی برادری پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ہم کو دنیا کے کسی بھی حصہ میں حقوق انسانی کی ہر قسم کی خلاف ورزی کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی کناڈا کی طویل تاریخ اور پناہ گزینوں اور پناہ چاہنے والوں کے لیے محفوظ ترین مقاموں میں سے ایک ہونے کی جو امیج ہے اس پر فخر ہے۔لیکن اس معاملہ میں کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا گیا تو اس سے کناڈا کی اس امیج /وقار کو ٹھیس پہنچے گی جو دنیا بھر میں کناڈا کی ہے۔لہٰذا ہم حکومت کناڈا سے پرزور اپیل کرتے ہیںکہ کریمہ بلوچ کے قتل کی فوری اور مکمل تحقیقات کرائی جائے ، مجرموںکو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے اور اس حقوق انسانی کی کارکن کے قتل میں کسی بھی بیرونی ملک یا گروپ کا ہاتھ نظر آئے تو اس کے خلاف کارروائی کرنے اور کرانے کے لیے سفارتی اور سیاسی لائحہ عمل اختیار کیا جائے ۔