Opposition’s march could either be towards Islamabad or Rawalpindi: Fazl

اسلام آباد: (اے یو ایس) پاکستان میں اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ’ہم ملکی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کو دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں، پی ڈی ایم کی قیادت فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے گا یا پھر راولپنڈی کی طرف کیا جائے گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو ایک ڈیپ سٹیٹ بنا کر یہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہے اور عمران خان ایک مہرہ ہیں جن کے لیے انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور ان کو قوم پر مسلط کیا اور ایک جھوٹی حکومت قائم کی۔’

مولانا فضل الرحمان کی زیرصدارت پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس جاتی امرا میں ہوا جس میں حکومت مخالف تحریک اور دیگر معاملات پر غور کیا گیا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو اس کا مجرم سمجھتے ہیں اور ہماری تنقید کا رخ اب برملا ان کی طرف ہوگا اور اب ان کو سوچنا ہے کہ پاکستان کی سیاست پر اپنے پنجے گاڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا اس سے دستبردار ہو کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کی طرف جاتے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میڈیا پر پی ڈی ایم کے اختلافات کی خبریں چلائی جاتی ہیں لیکن یہ خبریں اب دم توڑ چکی ہیں اور پی ڈی ایم پہلے سے زیادہ مضبوط اور اس ناجائز حکومت سے قوم کی جان خلاصی کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم ہے۔’ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘گزشتہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ 31 دسمبر تک تمام اراکین اسمبلی اپنے استعفے پارٹی قیادت کو جمع کروائیں گے اور سب نے اجلاس میں رپورٹ دی ہے کہ سب کے استعفے قیادت تک پہنچ گئے ہیں جس کے بعد ایک ہدف مکمل ہوگیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکومت کے پاس 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی مہلت ہے، اس کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت حکومت مخالف لانگ مارچ اور اس کی تاریخ کا اعلان کرے گی۔‘مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، انھوں نے مزید کہا کہ اصولی طور پر ہم کسی ادارے کے انتخاب کے خلاف نہیں ہیں اور سینیٹ انتخابات کے لیے ابھی وقت ہے، حالات کو مدنظر رکھا جائے گا اور اجلاس میں فیصلے کیے جائیں گے۔اس موقع پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ استعفوں سے پہلے جو بھی ضمنی الیکشن ہوں گے ان میں حصہ لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس جعلی حکومت کے لیے کوئی بھی راستہ خالی نہیں چھوڑیں گے۔‘ضمنی انتخابات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ضمنی انتخابات میں ہمارا مشترکہ امیدوار بھی سامنے آ سکتا ہے۔‘مریم نواز نے سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں مذاکرات جاری ہیں۔

پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ڈی ایم میں شامل کسی جماعت نے ابھی سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا، سینیٹ کے الیکشن میں ابھی ٹائم ہے اس لیے اس پر مزید بات ہو گی۔‘انھوں نے مذاکرات کے بارے میں مزید کہا کہ ’میاں نواز شریف کا واضح پیغام ہے کہ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف کا کہنا ہے کہ اگر سب نے فیصلہ کر لیا الیکشن لڑنا ہے تو لڑیں گے اگر نہ لڑنے کا فیصلہ کیا تو نہیں لڑیں گے۔‘مریم نواز نے حکومتی رابطوں اور کوششوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کنفرم کرتی ہو رابطوں کی تو کوشش کی جا رہی ہے۔‘مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ ہم نیب کو احتساب کا ادارہ نہیں سجھتے بلکہ اس کو بھی ہم اس موجودہ نظام کا ایک ایسا ادارہ سمجھتے ہیں جو صرف حزب اختلاف کے لیے استعمال کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔’انھوں نےمزید کہا کہ ‘خواجہ آصف کی گرفتاری کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے، اب ملک میں سیاسی انتقام کا سلسلہ نہیں چلے گا، ہم ملک میں انصاف چاہتے ہیں اور یہ احتساب نہیں انتقام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 19 جنوری کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کی طرف سے مظاہرہ ہوگا اور ایک شیڈول مرتب دے رہے ہیں کہ نیب کے دفاتر کے سامنے بھی اس طرح کے مظاہرے کیے جائیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے نواز شریف کی وطن واپسی کی شرط کے حوالے سے کہا کہ یہ قیاس آرائیاں ہیں جس پر ہمیں دکھ ہوتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور پیپلز پارٹی سے کوئی تحفظات نہیں ہیں۔محمد علی درانی سے ملاقات پر ان کا کہنا تھا کہ وہ بنا پروگرام کے آئے تھے اور انھوں نے نیشنل ڈائیلاگ کا فلسفہ بیان کیا جس پر میں نے کہا کہ یہ خاج از امکان ہے اور بات ختم ہو گئی۔