واشنگٹن: (اے یو ایس) اگر اس صدی کے پہلے عشرے کو دیکھا جائے تو شاید ہی کسی دوسرے دو ملکوں کے درمیان اتنے قریبی روابط دکھائی دیں جتنے امریکہ اور پاکستان کے رہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے 9/11 دہشت گرد حملوں کے بعد کے برسوں میں باہمی تعاون کے باوجود یہ تعلقات اس سطح پر نہ پہنچ پائے جہاں دونوں ملک انہیں دیکھنا چاہتے تھے۔اب افغان جنگ کے نقطہ عروج کے مقابلے میں کہیں مختلف حالات میں امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں آنے سے دونوں ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ ان اہم دو طرفہ تعلقات کو حقیقت پسندانہ انداز میں بہتر کر سکیں۔
ان خیالات کا اظہار جنوبی ایشیا پر گہری نظر رکھنے والے امریکی ماہر بروس رائیڈلاور برطانوی صحافی اور مصنف ڈیکلن والش نے واشنگٹن میں قائم بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے زیر اہتمام ایک آن لائن مباحثے میں پاکستان کو درپیش اندرونی چیلنجز اور اس کے بین الا اقوامی کردار کے موضوع پر کیا۔یہ مباحثہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس کے دور اقتدار کے آغاز سے قبل ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ افغانستان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے مطابق پاکستان سے مل کر افغان امن عمل کو آگے بڑھا رہا ہے اور وہاں سے اپنی افواج کو واپس لانے پر کام کر رہا ہے۔پاکستان کی مدد سے شروع کیے گئے افغان امن عمل سے پہلے صدر ٹرمپ اور اس سے پہلے اوباما دور میں پاکستان کو امریکہ کی جانب سے طالبان کی حمایت پر تنقید کا سامنا رہا۔ جب کہ پاکستان کو بھی امریکہ کی طرف سے اس کے سابقہ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں اور خطے کے بڑے مسائل پر امریکی پالیسیوں پر شکایات رہیں۔لیکن آج کے مختلف حالات میں ماہرین بائیڈن کے صدارتی دور کے آغاز کو ایک ایسے پہلو کے طور پر دیکھ رہے ہیں جب دونوں ممالک باہمی مواقع اور تجارت کے ذریعے تعلقات کو بہتر کر سکتے ہیں۔
بروکنگز کے سینئر فیلو بروس رائیڈل نے کہا کہ نو منتخب صدر بائیڈن افغان جنگ کے خاتمے کے حق میں ہیں، کیونکہ انہوں نے سابق صدر اوباما کے دور میں بھی یہی موقف اختیار کیا تھا اور کہا تھا کی امریکہ کو افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے لیے ایک مختصر فورس رکھنی چاہیے۔رائیڈل نے ،جو امریکی قومی سلامتی کونسل اور محکمہ دفاع میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں نے کہا کہ اب افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل مکمل کرنا بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک بڑا امتحان ہو گا کیونکہ افغان طالبان مئی تک تمام امریکی فوجوں کا انخلا چاہتے ہیں۔’اس کام کی تکمیل کے لیے بہت سی کوششیں درکار ہوں گی۔ اور اس سارے معاملے میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہو گا’۔
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے ضمن میں رائیڈل نے خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ بائیڈن پاکستانی سے بخوبی واقف ہیں اور انہوں نے نائب صدر بننے سے پہلے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے برطانوی صحافی ڈیکلن والش نے کہا کہ پاکستان کے امریکہ سے قریب تعلقات کے دور میں اسلام آباد کے افغان جنگ میں تعاون کے بدلے میں امریکہ سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔لیکن انہوں نے کہا کہ اب افغان جنگ کے خاتمے کے ساتھ امریکہ کے لیے پاکستان کی وہ اہمیت کم ہو جائے گی۔ والش، جنہوں نے کئی سالوں تک دی نیویارک ٹائمز کے لیے پاکستان سے رپورٹنگ کی نے کہا کہ نئے بدلے ہوئے حالات میں پاکستان کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ امریکہ سے حقیقت پسندانہ انداز میں تعلقات استوار کرے۔اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کے بھارت سے تعلقات مضبوط تر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے دو طرفہ تعلقات میں تجارت کی اہمیت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور بھار ت کی تجارت ایک سو ارب ڈالرز کے قریب ہے جب کہ امریکہ اور پاکستان کے مابین تجارت چھ ارب ڈالرز سے کچھ ہی زیادہ ہے۔والش نے، جنہوں نے اپنے پاکستان میں گزارے سالوں پر مبنی تجربے پر ایک کتاب ‘دی نائن لائیوز آف پاکستان، بھی تحریر کی ہے نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت کے مقابلے میں آزادی رائے کم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہمہوریت پسند لوگوں کے رہنما بن کر ابھرنے میں کئی قسم کی رکاوٹیں بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں پشتون تحفظ تحریک کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے اور ان کے رہنماو¿ں کو حراست میں بھی لیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سویلین ملٹری اختیارات اور سیاست دانوں میں بدعنوانی کے حوالے سے بھی چلینجز ہیں۔لیکن انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مشرق وسطی کے بڑے خطے کے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں جمہوری آزادیاں زیادہ ہیں۔ اور لوگ مشکلات کے باوجود جمہوریت کے تصور کے لیے کوشاں ہیں۔
