court decisions against terrorists leaders in Pakistan are on rise

سہیل انجم

آجکل پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے رہنماو¿ں کے خلاف عدالتی کارروائیوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بس اب پاکستان دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہونے والا ہے۔ یکے بعد دیگرے فیصلے سنائے جا رہے ہیں اور دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں تیزی سے سماعت ہو رہی ہے۔ کالعدم تنظیم لشکر طیبہ اور جماعت الدعویٰ کے بانی حافظ محمد سعید اور دوسرے رہنما ذکی الرحمن لکھوی کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ لشکر طیبہ سے متعلق مزید تین بڑے دہشت گردوں کے خلاف بھی فیصلے سنائے گئے ہیں۔ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی عدالتیں تیزی سے کارروائیاں کر رہی ہیں۔ حافظ سعید پر دہشت گردی کی اعانت سے متعلق سات مقدمات ہیں اور عدالتیں چھ مقدمات میں فیصلے سنا چکی ہیں۔ ان فیصلوں کی روشنی میں انھیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اسی طرح ذکی الرحمن لکھوی کے خلاف قائم ایک مقدمے میں سات دنوں کے اندر عدالتی کارروائی مکمل ہو گئی اور انھیں پانچ سال کی جیل کی سزا سنائی گئی۔یاد رہے کہ حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور دہشت گردی کی مالی اعانت کرنے کے متعدد الزامات ہیں۔ ان دونوں پر ممبئی حملوں کی منصوبہ سازی کا بھی الزام ہے۔ اس حملے میں 160 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں متعدد غیر ملکی بھی تھے۔ اس حملے کے بعد سے ہی ہندوستان حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچانے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

پہلے پاکستان نے ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان دونوں کے خلاف ثبوت فراہم کرے۔ جب ہندوستان نے وافر ثبوت پیش کر دیے تو کہا گیا کہ ان ثبوتوں میں کوئی دم نہیں ہے۔ ادھر عالمی برادری اور اقوام متحدہ کا بھی پاکستان پر دباؤ تھا کہ وہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرے۔ حافظ سعید کو بہت دنوں کے بعد گھر میں نظر بند کیا گیا۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کی جانب سے حافظ سعید کو عالمی دہشت گردقرار دیا جا چکا ہے۔ بلکہ امریکہ نے تو ان پر دس لاکھ ڈالر کے انعام کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود حافظ سعید پاکستان ہی میں رہتے رہے ہیں اور ان کو اپنی سرگرمیاں انجام دینے کی مکمل آزادی بھی حاصل رہی ہے۔ اسی طرح جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پر بھی متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ان کو بھی عالمی دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔ گزشتہ سال جموں و کشمیر کے پلوامہ میں بی ایس ایف کے قافلے پر حملے کا الزام بھی ان پر ہے جس میں 40 بھارتی سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے اور جس کے بعد ہندوستان کی فضائیہ نے بالاکوٹ میں جیش محمد کے تربیتی مرکز پر حملہ کیا تھا۔ گزشتہ دنوں گوجران والا کی ایک عدالت نے ان کے خلاف وارنٹ جاری کیا اور انھیں جلد از جلد عدالت میں پیش کیے جانے کا حکم سنایا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں نئی ہیں یا اب جا کر حکومت پاکستان کو ان کی سرگرمیوں کا علم ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تنظیمیں اور ان کے رہنما دہائیوں سے دہشت گردانہ کارروائیوں اور خود کش حملوں میں ملوث ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کو چھوٹ بھی دی جاتی رہی ہے۔ صرف چھوٹ ہی نہیں بلکہ حافظ سعید کے ادارے فلاح انسانیت فاونڈیشن کو فنڈ بھی فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان خود دہشت گردی کا بہت بڑا شکار ہے اور اب تک کم از کم 75 ہزار پاکستانی باشندنے دہشت گردانہ وارداتوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ پاکستان نے ان کے خلاف کچھ آپریشنس بھی چلائے ہیں۔ اس کے باوجود دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں وہ اب تک ناکام ہے۔لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں پہلے خاموش تھیں اور اب اچانک سرگرم ہو گئی ہیں۔ کیا ان پر کوئی عالمی دباو¿ ہے یا وہ ملک کی ساکھ بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان تمام کارروائیوں کے ڈانڈے دہشت گردی کی فنڈنگ پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے ملتے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف نے دہشت گردی کی اعانت کرنے کے الزام میں پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔ پہلے اسے 2012 میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور 2015 میں اس سے باہر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2018 میں پھر اسے گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔ فی الحال ایف اے ٹی ایف نے اسے گرے لسٹ سے نکالنے کا کوئی عندیہ ظاہر نہیں کیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس پاکستان پر بلیک لسٹ کیے جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ فروری میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہونے والا ہے جس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے یا اسی میں رہنے دیا جائے یا پھر اسے بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے لیے سرمایے کی فراہمی اور منی لانڈرنگ پر روک لگانے میں کتنا سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں کتنی کامیاب کارروائیاں کرتا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ جو عدالتی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اس کا مقصد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانا ہے۔ لیکن کیا وہ ان اقدامات سے ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پر ایف اے ٹی ایف کے علاوہ عالمی رہنماؤں کا بھی دباؤ ہے۔اس وقت پاکستان کی معیشت بری حالت میں ہے۔ حالانکہ حالیہ دنوں میں کچھ بہتری کی صورت نظر آئی ہے لیکن اب بھی اس کو بڑے سہارے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں سے مالی تعاون کی بھی سخت ضرورت ہے۔ اگر ایف اے ٹی ایف اسے اپنی لسٹ سے نکال دیتی ہے تو اسے بعض ذرائع سے مالی معاونت ہو سکتی ہے اور اگر اس نے اسے بلیک لسٹ کر دیا تو پھر پاکستانی معیشت اور بھی تباہ و برباد ہو جائے گی اور پاکستان ا س کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت جو کارروائیاں چل رہی ہیں اور جو سزائیں سنائی جا رہی ہیں ان میں پاکستان کتنا سنجیدہ ہے۔

کیا وہ خلوص نیت سے یہ سب کر رہا ہے یا ایف اے ٹی ایف کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کر رہا ہے۔ اگر ہم ماضی کی کارروائیوں پر نظر ڈالیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس میں خلوص نیت کا عمل دخل کم اور اپنی جان چھڑانے کی کوشش کا دخل زیادہ ہے۔ کچھ لوگوں کو شبہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی لسٹ سے نکل جانے کے بعد وہ ایک بار پھر دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں اور افراد کو ڈھیل دے دے گا۔ ایک امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کے مجرم احمد عمر شیخ کی مثال سامنے ہے جسے جیل کی ہو چکی تھی لیکن پاکستان کی ایک عدالت نے گزشتہ دنوں اسے رہا کرنے کا حکم سنا دیا جس پر امریکہ نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذا عالمی برادری اور اداروں کو پاکستان پر اتنا اعتماد نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے۔پاکستان کے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور خاص طور پر عمران خان کی حکومت امریکہ، مغربی ممالک اور دوست ممالک کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کو ختم کرنے میں وہ سنجیدہ ہے اور اس میں کسی کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔ جن کے خلاف مقدمات ہیں ان میں عدالتیں قانون کے مطابق کارروائی کر رہی ہیں۔ اس بارے میں ان پر حکومت کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔

حکومت یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ عدالتیں فوری طور پر فیصلہ کریں۔ ان کی اپنی ایک رفتار اور طریقہ کار ہے۔ جہاں تک حکومت کی طرف سے پراسیکیوشن، ثبوت اور گواہوں کو پیش کرنا ہے تو حکومت اس عمل میں تیزی لا رہی ہے۔ بعض دوسرے مبصرین کا کہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بیشتر شرائط پاکستان نے پوری کر دی ہیں۔ چند ایک ہی باقی رہ گئی ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 27 نکاتی اہداف دیے تھے جن میں سے 21 پر اس نے عمل درآمد کر دیا ہے چھ باقی ہیں۔ انھیں چھ نکات پر عمل درآمد کے لیے یہ کارروائیاں چل رہی ہیں۔ بہر حال ایک بات تو واضح ہے کہ پاکستان نے اب ایسی تمام تنظیموں کے خلاف کارروائیاں شروع کی ہیں جن پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کا شبہ تھا۔ جن میں سے کچھ کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔ جب کہ ماضی میں پاکستان ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنے سے کتراتا رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے مطابق پاکستان کو بہت سی دستاویزات تیار کرنی ہیں جن میں معیشت سے جڑی دستاویزات زیادہ ہیں۔ اقتصادیات سے متعلق چیزوں کو دستاویزات کے مطابق بنایا بھی جا رہا ہے۔ پاکستان اگر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں گیا تو اسے اقتصادی اور سفارتی سطح پر زبردست مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایسے میں اس پر جو پابندیاں عائد ہوں گی ان کو معیشت برداشت نہیں کر پائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایف اے ٹی ایف پاکستان کی حالیہ کارروائیوں سے مطمئن ہو پاتی ہے یا نہیں اور جب فروری میں اس کا اجلاس ہوگا تو کیا وہ پاکستان کو اپنی گرے لسٹ سے نکال دے گی۔
sanjumdelhi@gmail.com