JUI-F chief Maulana Fazlur Rehman get most monetary benefits from the Senate polls: says Imran Khan

اسلام آباد: (اے یو ایس ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماضی میں سینیٹ نشستوں کے لیے مجھے پیسوں کی متعدد پیش کش ہوئی جبکہ اس وقت بلوچستان میں ایک سینیٹر بننے کا ریٹ 50 سے 70 کروڑ روپے تک جارہا ہے، سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے نہیں ہوئے تو یہ اپوزیشن والے ہی روئیں گے کہ تحریک انصاف کو زیادہ سینیٹر مل گئے۔راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا یہاں سیاست دانوں کے ضمیروں کا سودا ہوتا ہے یا نہیں، کیا لوگوں کے ضمیر خریدنے، رشوت دینے اور وہ لوگ جو ملک کی قیادت ہیں، ان کے لیے پیسہ چلتا ہے؟ وزیراعظم نے مزید کہا کہ دونوں مرکزی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت اور فضل الرحمٰن سب کو علم ہے کہ پیسہ چلتا ہے اور فضل الرحمٰن نے سب سے زیادہ پیسہ بنایا ہے، ان کی جماعت میں تو وہ سینیٹر بن گئے جو جے یو آئی میں ہی نہیں تھے، وہ باہر سے آکر سینیٹر بن جاتے ہیں، لہٰذا سوال تو ان سے کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ پیسوں، سیاست دانوں کی منڈی لگی ہوئی ہے، قیمتیں لگ رہی ہیں تو کیا ہم نے اسی نظام کے تحت انتخاب کرانا ہے، جب ان دونوں جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے اپنے میثاق جمہوریت میں واضح کہا تھا کہ اوپن بیلٹ ہونا چاہیے، گزشتہ انتخاب میں مسلم لیگ (ن) نے کہا تھا کہ اوپن بیلٹ ہونا چاہیے اور میں نے اس کی تائید کی تو پھر آج یہ کیوں پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ یہ 30 سال سے ہورہا ہے، اس میں قیادت کو پیسہ ملتا ہے، مجھے اس لیے یہ پتا ہے کہ مجھے خود پیسوں کی پیش کش آئی تھی، 5 سال قبل سینیٹ کے انتخابات میں مجھے پیسوں کی پیش کش کی گئی، جب ایک سیاسی قیادت کو پتا ہے کہ پیسہ ملتا ہے تو پھر کیوں انہوں نے اس کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ یہ خود پیسہ بناتے ہیں۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہماری جمہوریت کی نفی ہے، یہ کونسی جمہوریت ہے کہ آپ پیسے دیکر سینیٹر بن جائے اور یہ کونسے اراکین پارلیمنٹ ہیں جو پیسے لیکر ووٹ بیچیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ سوال پوچھنا کہ میرے پاس ویڈیو تھی تو اگر میرے پاس یہ ویڈیو ہوتی تو میں یہ عدالت میں نہیں لے جاتا کیونکہ جو 20 لوگ ہم نے نکالے تھے ان میں سے 2 نے مجھ پر مقدمہ کردیا تھا تو میرا وکیل یہ وہاں جمع نہ کرا دیتا۔

عمران خان نے کہا کہ یہ چور جو اپنے آپ کو سیاست داں کہتے ہیں، یہ جو پی ڈی ایم میں اپنی چوری بچانے کے لیے یونین بنی ہوئی ہے، ان سب سے یہ پوچھنا چاہیے کہ جب آپ کو پتہ تھا تو آپ نے اپنے 30 سالوں میں انہیں روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے ایک آدمی نے نہیں کئی لوگوں نے پیش کشیں کیںکہ اگر آپ سینیٹ کی نشست دے دیں تو ہم اتنا پیسہ دینے کو تیار ہیں وہ آپ شوکت خانم میں دے دیں، یہ پیشکش ایک نے نہیں کئی لوگوں نے دی ہے اور صرف مجھے نہیں بلکہ پارلیمانی بورڈ میں بھی لوگوں کو پیسوں کی پیش کش کی جاتی ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ جو اتنا پیسہ خرچ کرے گا وہ آکر پیسہ بنائے گا اور پیسہ پاکستانی عوام کی کھال کھینج کر، پاکستان کا خون چوس کر بنائے گا کیونکہ کوئی 50 یا 70 کروڑ روپے ایسے ہی خرچ نہیں کرتا۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات ہم نے اسی کرپٹ سسٹم کے تحت لڑنا ہے یا شفافیت لے کر آنی ہے۔مہنگائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب روپیہ ڈالر کے مقابلے میں گرتا ہے تو ساری درآمدی چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں، پیپلزپارٹی جب اقتدار میں آئی تو روپے کی قدر 25 فیصد کم ہوئی اورآج سے بہت زیادہ مہنگائی ہوئی جبکہ ہماری باری میں 24.5 فیصد روپے کی قدر کم ہوئی۔انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں اس لیے کمی آتی ہے کہ جب درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہوتی ہے اور ڈالر زیادہ باہر جاتے ہیں تو روپے کی قدر گرجاتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو تیل مہنگا ہوجاتا ہے جس کا مطلب تمام ٹرانسپورٹ، بجلی، گیس، درآمدی دالیں، گھی مہنگا ہوجاتا ہے اور جب وہاں قیمت بڑھتی ہے تو یہ پھر مہنگا ہوجاتا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اللہ کرے ہماری برآمدات، درآمدات سے زیادہ ہوجائیں تو روپے کی قدر مضبوط ہوگی اور مہنگائی کم ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے دو بارشیں غلط وقت پر ہوگئیں جس کی وجہ سے ہماری گندم کی پیداوار کم ہوئی اور ہمیں اسے درآمد کرنا پڑ گیا۔