بیجنگ: چین میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ایک چونکانے والی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ نکئی ایشیا کی رپورٹ کے مطابق کوئی بھی میڈیا گروپ آزاد نہیں ہے۔حکمران کمیونسٹ پارٹی نے میڈیا گروپس پر شکنجہ کسا ہوا ہے۔ ایسے میں ان کے پاس پارٹی کے مفادات کے مطابق چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
رپورٹ میں بی بی سی پر پابندی کے قدم پر چین میں نکئی کے بیورو کے چیف ، تیتسوشی تاکاہاشی نے کہا کہ شی جن پنگ کے 2012 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے میڈیا کنٹرول بڑھ گیا ہے۔ اخبارات ، چینلز اور ریڈیو اسٹیشنوں کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔یاد رہے کہ چین کے نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویژن انتظامیہ نے بی بی سی ورلد نیوز کی نشریات پر پابندی لگادی ہے۔
امریکہ اور یوروپی یونین نے بی بی سی پر پابندی عائد کرنے کے چینی اقدام کی مذمت کی ہے۔ یوروپی یونین کا کہنا تھا کہ چین کو بی بی سی ورلڈ نیوز پر پابندی کو بدلنا چاہئے ،کیونکہ اس نے چینی آئین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔تاہم ، اس کا کہنا ہے کہ بی بی سی زنجیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی جھوٹی خبریں چلا رہی ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کے اہم اخبار گلوبل ٹائمز نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے معاملے میں چین کے اقدام کو لیکر بی بی سی پر غلط رپورٹنگ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ایک ہفتہ قبل ہی برطانوی میڈیا ریگولیٹر آفکام نے چین کے سرکاری انگریزی چینل سی جی ٹی این ( چائنا گلوبل ٹیلی ویڑن نیٹ ورک) کا لائسنس منسوخ کردیا تھا جس کے بعد چین نے جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔
چین نے بی بی سی کی طرف سے کورونا وبا اور اقلیتی اویغوروں پر ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں رپورٹنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور برطانوی نشریاتی ادارے کے پاس احتجاج درج کرایا۔ وہیں چین کے اس اقدام پر بی بی سی نے کہا کہ چینی حکومت کی طرف سے کئے گئے اقدام سے مایوسی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ بی بی سی کو کبھی بھی بھومی چین یا چینی گھروں میں نشر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ بی بی سی ورلڈ نیوز صرف بین الاقوامی ہوٹلوں اور سفارتی دفاتر میں دستیاب تھی۔
