A unique tale of Haj travel

سہیل انجم

مجھے سفرنامے اور خودنوشت پڑھنے کا شوق ہے۔ بڑے لوگوں کی خودنوشت کے مطالعے سے ایک طرف جہاں خودنوشت نگار کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے وہیں اس عہد کی تاریخ بھی کسی حد تک ہمارے سامنے روشن ہو جاتی ہے۔ سفرناموں میں حج کے سفرناموں سے مجھے زیادہ رغبت ہے۔ میں نے دو بار حج اور ایک بار عمرہ کی ادائیگی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ تینوں اسفار کی رودادیں میں نے قلمبند کیں۔ میرے پہلے سفرنامہ¿ حج کا نام ہے ”پھر سوئے حرم لے چل“ اور دوسرے کا ہے ”بازدید حرم“۔ سرزمین حرمین پر تین بار کی حاضری اور حج کے کئی سفرناموں کے مطالعے کے باوجود اس سرزمین اور وہاں کے مقامات مقدسہ کے تعلق سے جاننے اور ان کے مطالعے کا شوق کم نہیں ہوا بلکہ ہر مطالعے کے بعد اس شوق کو اور مہمیز لگتی ہے اور اس سرزمین کی زیارت کی تڑپ بڑھ جاتی ہے۔ مولانا اعجاز احمد اعظمی کے سفرنامے ”بطواف کعبہ رفتم“ کے مطالعے نے اس تڑپ میں اور اضافہ کر دیا ہےیہ سفرنامہ مکتبہ ضیاءالکتب، خیرآباد، ضلع مو¿ کے پروپرائٹر مولانا ضیاءالحق خیرآبادی نے عنایت کیا ہے۔ وہ گزشتہ دنوں جب دہلی آئے اور خاکسار کے غریب خانے پر تشریف لائے تو باتوں باتوں میں میرے اس سوال پر کہ کیا کسی ایسے شخص نے، جس نے زائد از ایک بار حج کیا ہو اور جتنی بار کیا ہو اتنی بار اس نے سفرنامہ بھی لکھا ہو، مولانا موصوف نے بتایا کہ ہاں مولانا اعجاز احمد اعظمی نے حج کے کئی سفرنامے لکھے ہیں جو کہ بطواف کعبہ رفتم کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس نام کا سفرنامہ تو پروفیسر شعیب اعظمی کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہاں اُن کا بھی ہے اور اِن کا بھی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس سفرنامہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سفرناموں کا مجموعہ ہے۔ اس میں نصف درجن سفرناموں یا روداد سفر حج کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ گویا یہ ”سفرنامہ¿ حج“ نہیں بلکہ ”اسفارنامہ¿ حج“ ہے۔ میں نے اس کتاب کے مطالعے کی خواہش ظاہر کی اور مولانا ضیاءالحق نے کچھ دنوں کے بعد وہ کتاب میرے پاس بھیج دیا۔یہ کتاب 464 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں پہلا سفرنامہ مولانا اعجاز احمد اعظمی کا ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے 1989 میں فریضہ¿ حج کی ادائیگی کی تھی۔ سفرنامہ تقریباً ایک سال کے بعد لکھا گیا۔ لیکن اس کی اشاعت کئی سال کے بعد ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے 1991 میں، 1997 میں، 2003 میں، 2006 میں، 2007، 2008 اور 2011 میں فریضہ¿ حج کی ادائیگی کی۔ بیشتر اسفار کی روداد انھوں نے خود لکھی اور کئی اسفار کی روداد ان کے ہمراہیوں مثلاً مولانا ضیاءالحق، الحاج نوراللہ دربھنگوی اور مولانا اعجاز اعظمی کے صاحبزادے مولانا محمد عرفات نے تحریر کی۔ یہ تمام روداد اس کتاب میں موجود ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1997 میں کتب خانہ نعیمیہ دیوبند سے شائع ہوا جو صرف 160 صفحات پر مشتمل تھا۔ دوسرا ایڈیشن غیر معمولی اضافے کے ساتھ 2008 میں فرید بک ڈپو دہلی سے شائع ہوا جو 360 صفحات پر مشتمل تھا۔ زیر تبصرہ ایڈیشن 2015 میں مکتبہ ضیاءالکتب خیرآباد سے شائع ہوا۔ اس طرح اس ایک کتاب میں کئی سفرنامے شامل ہیں۔ اس لحاظ سے غالباً یہ پہلا سفرنامہ¿ حج ہوگا۔ اس کا پیش لفظ مولانا ضیاءالحق خیرآبادی نے اور اس کی تقریظ ہمارے ہم وطن مولانا نثار احمد قاسمی نے تحریر کی ہے۔ جبکہ مولانا اعجاز احمد اعظمی نے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ انھوں نے یہ سفرنامہ کیسے اور کیوں لکھا اور اس میں کتنا وقت لگا۔چونکہ یہ مختلف حجاج کرام کے قلم گہر بار کے مشاہدات، تاثرات اور قلبی واردات پر مبنی ہے اس لیے اس میں بڑا تنوع ہے۔

الگ الگ انداز و اسلوب اختیار کیے گئے ہیں لیکن جو بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر سفرنامہ نگار نے اپنے جذب و شوق کو بڑے والہانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ مولانا اعجاز احمد اعظمی کا اسلوب نگارش سب سے جدا ہے۔ ان کی روداد پڑھتے وقت ایسا لگتا ہے کہ ہم بھی اس ارض مقدس کی زیارت کر رہے ہیں جس کی زیارت کی تڑپ ہر مسلمان کے دل میں ہے۔ عام طور پر جب کوئی زائر وہاں جاتا ہے یا حج کی سعادت نصیب ہونے والی ہوتی ہے تو سفر سے قبل اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔ اس کے ارد گرد ایک عجیب سی روحانی فضا چھا جاتی ہے اور وہ ناقابل بیان کیفیات سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر وہ اہل قلم ہے اور واپسی کے بعد روداد قلمبند کرتا ہے تو ان کیفیات کا بھی ناگزیر طریقے سے ذکر کرتا ہے۔ مولانا موصوف نے بھی ان کیفیات کا ذکر کیا ہے مگر بڑے والہانہ انداز میں۔ ان کے دل میں فریضہ حج کی ادائیگی کی جو تڑپ بچپن سے تھی اس کے عملی صورت اختیار کرنے کے مرحلے کو بھی انھوں نے بڑی وارفتگی و شیفتگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔کہیں کہیں مولانا موصوف کا انداز بیان بڑا دلچسپ ہو گیا ہے اور کتاب پڑھتے وقت ہونٹوں پر تبسم کھیل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے منیٰ کے ذکر کے دوران مسجد خیف میں حاضری اور نماز کی ادائیگی کا ذکر کرتے وقت ”الکالا ولجبرا“ کے قافلو ںکا بہت دلچسپ انداز میں حوالہ دیا ہے۔ الکالا ولجبرا یعنی سیاہ فام حبشیوں کا قافلہ جب کسی جگہ پہنچتا ہے خواہ وہ حرمین ہوں یا کوئی دوسری مسجد تو ایک تہلکہ سا مچ جاتا ہے۔ جس وقت مولانا موصوف اپنے دوستوں کے ساتھ مسجد خیف میں نفل کی ادائیگی کے بعد آرام کر رہے تھے کہ اسی دوران سیاہ فام حبشیوں کا ایک غول مسجد میں پہنچ گیا اور پھر جو بے ترتیبی پھیلی ہے اس کا بیان انھوں نے مزے لے لے کر کیا ہے۔ اس روداد میں مولانا کے کئی ساتھوں اور دوستوں کا بھی ذکر بجا طور پر آگیا ہے اور کسی بھی سفرنامہ میں ایسے لوگوں کا تذکرہ آتا ہی ہے۔

انھوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں کئی ایسے بزرگوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔ بزرگوں کے تذکرے سے ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ سو اس سفرنامہ کے مطالعے کے دوران بار بار اس کیفیت سے واسطہ پڑتا ہے۔دوسرا سفرنامہ کتاب کے مرتب مولانا ضیاءالحق کا لکھا ہوا ہے۔ انھوں نے کئی بار حج کا فریضہ انجام دیا ہے۔ 1976 میں جب ان کے والدین حج پر جا رہے تھے تو اس وقت ان کی عمر محض پندرہ ماہ کی تھی۔ ظاہر ہے وہ بھی ساتھ میں گئے تھے۔ اسی مناسبت سے لوگ انھیں ”حاجی بابو“ کہنے لگے۔ اب یہ نام اس قدر معروف و مشہور ہوا کہ لوگ اب اسی نام سے ان کو پکارتے ہیں۔ ان کا اصل نام پس منظر میں چلا گیا ہے۔ اگر اس عہد طفلی کے سفر کو ان کا پہلا حج تسلیم کریں تو 1997 کے ان کے سفر کو دوسرا حج کہا جائے گا۔ انھوں نے سفر حج کے دوران بہت سی چیزیں اپنی ڈائری میں نقل کر لی تھیں اور جب سفرنامہ لکھنا ہوا تو اس ڈائری نے ان کا بڑا ساتھ دیا۔ 1997 میں منیٰ کے خیموں میں بھیانک آگ لگی تھی او ربہت سے حاجی شہید ہوئے تھے۔ اس وقت وہ بھی منیٰ ہی میں تھے۔ اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یوم عرفہ کے واقعات کو بھی انھوں نے ڈائری میں قلمبند کر لیا تھا۔ لہٰذا اس سے ایک بار پھر استفادہ کیا گیا۔

انھوں نے حج سے فراغت کے بعد اپنے والد گرامی کے نام ایک تفصیلی خط لکھا تھا۔ اس کو بھی کتاب میں نقل کیا گیا ہے۔ انھوں نے بھی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے روح پرور لمحات کا اپنے انداز میں نقشہ کھینچا ہے جو قابل مطالعہ ہے۔مولانا اعجاز احمد اعظمی نے چونکہ کئی حج کیے تھے اس لیے ان کے تجربات و مشاہدات کا دائرہ بھی کافی وسیع تھا۔ انھوںنے اپنے تجربات کی روشنی میں حجاج کرام کو کچھ مشورے دیے ہیں۔ انھوں نے ”سفر حج، بے اعتدالیاں اور ان کی اصلاح“ کے نام سے ایک رسالہ لکھا تھا اسے بھی اس میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ”سفر حج، حجاج کرام سے کچھ گزارشیں“ کے عنوان سے بھی ایک اصلاحی مضمون شامل کتاب ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک انوکھا سفرنامہ¿ حج ہے اور اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں نصف درجن سفرنامے شامل کر دیے گئے ہیں۔ اس کا مطالعہ زائرین کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔
sanjumdelhi@gmail.com