میانمارمیں آن سانگ سو کی سے اقتدار چھیننے کے بعد فوج نے ملک کی کمان اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے اور اگلے ایک سال کیلئے پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ لیکن میانمار کا مزدور طبقہ فوج کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں دکھائی دیتا اور نہ ہی طلبا برادری فوجی اقتدار کے آگے سپر انداز ہونے کو تیار نظر آتی ہے۔اسٹوڈنٹس ملک کے کئی علاقوں میں الگ الگ مقامات پر عام لوگوں کے ساتھ مظاہروں میں حصہ لے رہے ہیں۔شمالی میانمار میں نیپیڈاؤ سے شروع ہوا فوج مخالف آندولن اب جنوب میں یانگونگ تک اسی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔پرامن احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں میں شامل ایک ڈاکٹر قیاب سن کا کہنا ہے کہ انہیں پورا یقین ہے کہ وہ میانمار کے اس فوجی حکومت کو جلد ہی اکھاڑ پھینکیں گے اور جب تک وہ فوج کو اکھاڑ نہیں دیتے تب تک وہ کام پر واپس نہیں لوٹیں گے۔
مبصرین میانمار میں اس بدامنی اور فوجی تختہ پلٹ کے پس پشت چین کا دماغ کارفرما بتا رہے ہیں۔دراصل سیاسی طور پر دیکھا جائے تو فوجی حکومت سے چین کو زیادہ فائدہ ہوگا۔پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ چین میانمار کی فوجی حکومت کو اپنے اشاروں پر آسانی سے نچا سکتا ہے۔دوسرا اگر میانمار میں جمہوریت رہی تو وہاں پر تعمیرات اور تجارتی کاموں میں دوسرے ملک بھی آسکتے ہیں لیکن فوجی حکومت میں میانمار کے ہر تعمیری کام ،بیوپار اور میانمار کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے پر چین کا اختیار ہوگا۔میانمار میں فوجی حکومت نافذ ہونے کے بعد یہاں پر بھی چین کی طرز پر ملک کے اندر حکومت کے خلاف کسی بھی مہم کو دبانے میں آسانی ہوتی ہے۔دراصل چین بحر ہند میں اپنا عمل دخل چاہتا ہے اور اس کیلئے چین نے کوشش بھی بہت کی۔ ہندوستان کو گھیرنے کیلئے چین نے سری لنکا کے ہمبن ٹوٹا بندرگاہ میں بڑی سرمایہ کاری کر کے سری لنکا کو اپنے قرض کے جال میں پھنسا کر 99سال کیلئے ہمبن ٹوٹا بندرگاہ کو اپنے قبضے میں لے لیا لیکن مقامی لوگوں کی مخالفت اور چین مخالف آندولن کے شروع ہونے کے بعد چین کو اپنے منصوبے میں تبدیلی کرنی پڑی۔
مالدیپ میں بھی چین نے بہت کوششیں کیں لیکن وہاں پر بھی اقتدار مخالف گروپ کے ہاتھوں میں آنے کے بعد چین کو مالدیپ سے پیچھے ہٹنا پڑا۔اس کے بعد چین نے تھائی لینڈ میں کرااستمس خطے میں سویز اور پنامہ نہر کی طرز پر زمین کا کٹان کر کے ایک نہر نکالنے کا منصوبہ بنایا اور تھائی لینڈ سے اس بارے میں تبادلہ خیال بھی کیا لیکن تھائی لینڈ کو اس میں دو خطرے نظر آئے۔پہلا،تھائی لینڈ دوسرے ملکوں کی طرح چین کے قرض کے جال میں پھنسنا نہیں چاہتا تھا اور دوسری وجہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔دراصل تھائی لینڈ کے 4جنوبی صوبوں میں اسلامیانتہاپسندی اور علیحدگی پسندی پنپ رہی ہے۔یالا پتانی ساتن اور نارہ تھیوات میں مسلم آبادی زیادہ ہے اور چاروں جنوبی خطوں کو تھائی لینڈ میں اسلامی انتہا پسندی کی نرسری کہا جاتا ہے۔اگر چین کرائسمس میں نہر بنا دیتا تو تھائی لینڈ کے دو ٹکڑے ہو جاتے اور ایسے میں تھائی لینڈ کیلئے جنوبی ریاستوں پر قابو پانا مشکل ہو جاتا۔جب چین کا منصوبہ تھائی لینڈ میں بھی کھٹائی میں پڑنے لگا تب چین نے میانمار کی طرف توجہ دی اور اب میانمار کے راستے چین بحر ہند میں داخل ہونا چاہتا ہے۔
میانمار کی سب سے اہم بندرگاہ ستوے ہے جہاں سے چین ہندوستان کے اسٹریٹجک مقامات تک، جن میں چاندی پور،بالاسور،کلام دیپ،شری ہری کوٹہ اور انڈیمان نکوبار دیپ سموہ شامل ہیں، اپنی پہنچ بنانا چاہتا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب تک میانمار میں جمہوری سرکار ہے چین ایسا کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا لیکن فوجی حکومت میں ضرور ایسا کر سکتا ہے اور میانمار کی فوجی کمان چین کے ہاتھوں میں ہے۔لیکن جس طرح سے میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ چین کی چال خود اسی پر الٹی پڑ گئی ہے۔چین اب کسی بھی طرح سے فوجی سرکار کو چلانے کیلئے بھرپور کوشش کر رہا ہے لیکن میانمار کے عوام نہ صرف احتجاجی مظاہرہ کر ر ہے ہیں بلکہ اس بات کو لے کر پر اعتماد ہیں کہ جلد ہی وہ لوگ مل کر فوجی سرکاری کو ا±کھاڑ پھینکیں گے۔ایک طرف ڈاکٹر کام پر نہیں جا رہے ہیں،وہیں بجلی کرمچاریوں اور صفائی کرمچاریوں نے بھی احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتے ہوئے کام کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔آندولن میں شامل ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ بھلے ہی سرکاری ہسپتالوں میں نہیں جا رہے ہیں لیکن مریض آندولن کے بعد ان کے گھر آسکتے ہیں۔وہ ان کا علاج مفت میں کریں گے۔وہیں بجلی کرمچاریوں میں سب سے زیادہ تعداد میٹر ریڈروں کی ہے جن کے کام پر نہ جانے سے میٹر کے بل نہیں آئیں گے اور پھر سرکار کی کمائی پر اس کا اثر پڑے گا۔
