High malnutrition rate in Xinjiang amid China crackdown

بیجنگ:چینی محققین کی جانب سے کئے گئے 2 الگ الگ مطالعات کے مطابق چینی حکومت سنکیانگ میں اویغوروں کے ساتھ ہو رہے تشدد کے دوران معاشرے میں خاص طور پر بچوں اورنو عمر میں غذائیت میں کمی کا اضافہ ہو رہا ہے۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ(ایس سی ایم پی)کے مطابق ، سنکیانگ کے 15 فیصد یا اس سے کم عمر کے تقریبا 16 فیصد باشندوں کو خون کی کمی لاحق ہے۔ سنکیانگ میں خون کی کمی کی شرح قومی اوسط سے 23 فیصد زیادہ ہے۔ایک ملین سے زیادہ اویغوروں کو دوبارہ تعلیم کے کیمپوں میں نظربند کیا گیا ، جہاں وہ روزانہ ہتک آمیز پروگراموں کے ذریعے ان کی ساتھ کئی سالوں سے زیادتی کی جارہی ہے۔

واضح ہو کہ چین نے اس طرح کے کیمپوں کے وجود سے انکار کیاتھا لیکن 2019 میں عالمی دبا و¿کے تحت بالآخر اس نے یہ قبول کرلیا کہ سنکیانگ میں “پیشہ ورانہ تعلیمی اور تربیتی مراکز” میں تعلیم حاصل کرنے والے سبھی گریجویٹ ہو چکے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے چین کے اس رویہ پر اعتراض جتایا ہے اور جنوری میں بیجنگ میں اویغوروں کے خلاف کارروائی کو ‘نسل کشی’ قرار دیا تھا۔ اس نے خطے میں جبری مشقت کے خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے سنکیانگ میں بنے سامان کی درآمد پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔متعدد مغربی حکومتوں نے سنکیانگ میں چین کی پالیسیوں کی مذمت کی ہے ، جنوری میں برطانیہ نے چین پر دبا ؤڈالا تھا کہ اقوام متحدہ کے حقوق کے انسپکٹرز کو اس خطے کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔یوروپی پارلیمنٹ نے سنکیانگ میں جبری مشقت کے لئے دسمبر میں چین کی مذمت کی تھی۔

چینی حکومت کی جانب سے نسل کشی کی مزید اطلاعات شائع کرنے کے خلاف چینی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی سرزمین پر بی بی سی ورلڈ نیوز کی نشریات پر پابندی اس الزام کے تحت عائد کی کہ اس نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے معاملات پر غلط خبریں دکھائی ہیں۔ واضح ہو کہ چینی کمیونسٹ پارٹی پر طویل عرصے سے حکومت کو چیلینج کرنے والے افراد کی پکڑ دھکڑ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔