نئی دہلی: گجرات کے احمد آباد کی رہنے والی عائشہ عارف خان کی سسرال والوں کے برے سلوک اور جہیز کے مطالبہ سے تنگ آکر سابر متی ندی میں کود کر خود کشی کرلینے کے واقعہ پر سماج کے ہر طبقہ سے رنج اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے ، وہیں دوسری طرف سماج سے جہیز جیسی برائی کے خاتمہ کی بحث بھی تیز ہوئی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی دل دہلا دینے والا اور اندوہناک واقعہ ہے۔
اس دلدوز واقعہ کو ایک حادثہ کے طور پر دیکھنا چاہئے اور اس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، اس طرح کے واقعات کسی بھی سماج کے لیے افسوس ناک ہیں اور سماج کو اس کے وجوہات پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ اس واقعہ سے تمام لوگوں کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے اورمعاشرے سے جہیز کی لعنت کو ختم کرنا چاہئے۔ جہیز کے لیے سسرال میں لڑکیوں کو پریشان کرنا بہت گھٹیا حرکت ہے ، سسرال میں بہوو¿ں کے ساتھ خوش اخلاقی کا معاملہ ہونا چاہئے، انہیں پریشان نہیں کرنا چاہیے۔جہیز کے نام پر ان کو تنگ کرنا، بار بار طعنے دینا، مائیکے سے روپے اور مزید سامان لانے کا مطالبہ کرنا،انہیں ذہنی اذیت دینا اچھی بات نہیں ہے۔
شریعت میں جہیز لنا اور دینا دونوں ھرام ہیں لیکن لوگ اس کی پابندی نہیں کرتے ۔حضرت مولانا ولی نے مزید کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک اسی سلسلہ میں چل رہی ہے اور تفہیم شریعت کمیٹی نے خاص طریقہ پر تمام صوبوں میں اجلاس کر کے لوگوں کو اس جانب متوجہ کیس ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس مسئلہ کی جانب توجہ دینی چاہئے اور اس برائی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اس تحریک میں ساتھ دینا چاہئے۔ پ شخص اپنے گھر سے آغاز کرے اور یہ عزم کرے کہ نہ اپنے بیٹوں کی شادی میں جہیز لیں گے اور نہ بیٹیوں کی شادی میں کوئی جہیز دیں گے۔جہیز کی یہ بیماری ختم ہوجائے تو لڑکیوںکو انتہائی قدم اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
