اسلام آباد: (اے یو ایس) اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا ہے۔جمعرات کے روز چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے کہا تھا کہ ای سی ایل میں اس لیے نام رکھا کہ ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے، سارا ریکارڈ دیکھا اس وقت اسد درانی کے خلاف کوئی انکوائری زیر التوا نہیں نا ہی کوئی گراو¿نڈ ہے۔‘چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ’اسد درانی اب ایک عام شہری ہے اور آئین میں دیے گئے تمام حقوق ان کو حاصل ہیں اور وفاقی حکومت کے پاس کھلی چھوٹ تو نہیں کہ کسی کو بھی ای سی ایل میں ڈال دے۔‘دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے فریقین کو سننے کے بعد کیس کا فیصلہ سنایا۔
اس جواب میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ اسد درانی ’ملک دشمن سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔‘وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ اسی بنیاد پر ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا، جس کی وجہ سے وہ ملک سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔ تاہم اسد درانی ان الزامات کو ماضی میں کئی بار مسترد کر چکے ہیں۔واضح رہے کہ اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستانی حکام کے بقول ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے۔پاکستانی حکومت نے 29 مئی 2018 میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا تھا۔وزارت دفاع نے اس مقدمے میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے انڈین را کے سابق سربراہ کے ساتھ کتابیں لکھ کر آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی بھی خلاف ورزی کی ہے اور اس جرم پر قانونی کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت کی جاتی ہے۔
وزارتِ دفاع نے آرمی ایکٹ 1952 کا بھی حوالہ دیا کہ اسد درانی تو فوج میں رہے ہیں لیکن اگر کوئی سویلین بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو جس سے ملکی مفاد کو خطرہ ہو تو اس ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت اس کا بھی کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اگر کوئی شخص دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہو یا جس سے قومی سلامتی کو خطرہ ہو تو وفاقی حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس شخص کا نام نوٹس دیے بغیر ای سی ایل میں شامل کر دے اور اسے ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔وزارتِ دفاع کا موقف تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کے خلاف تحقیقات آخری مراحل میں ہیں اور ایسے مرحلے پر ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا اور اس مرحلے پر درخواست گزار کا ملک سے باہر جانے کا مقصد ’بین الاقوامی کانفرنس، فورم اور ٹاک شوز میں حصہ لینا ہے اور ایسا ہونے سے ملکی سلامتی کے لیے پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔‘حکومت کی جانب سے عدالت کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے گذشتہ برس 12 اور 13 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر آکر جس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا ’اس کو کسی بھی محب وطن شہری نے اچھا تصور نہیں کیا۔‘ تاہم اس جواب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے ان ’جذبات‘ کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔
اسد درانی کا کیا موقف ہے؟گذشتہ سال بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں اسد درانی نے کہا تھا کہ ‘جب تک کسی کتاب میں تنازع نہ ہو تو فائدہ کیا ہے؟ وہ تو پھر ایک سرکاری قسم کی تحریر ہو گی جو آپ آئی ایس پی آر سے لے لیں یا سرکار سے لے لیں۔ تنازع تو آپ کو پیدا کرنا ہے تاکہ بحث ہو سکے۔’ریاست کے راز افشا کرنے کے الزامات کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘شور بہت مچا لیکن کسی نے آج تک بتایا نہیں کہ اس کتاب میں ریاست سے منسلک کون سے راز تھے۔’آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت لوگوں پر مقدمہ چلانا سب سے آسان کام ہے۔ جتنی باتیں راز تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ کسی نے اِدھر سے بتا دیں، کسی نے ا±دھر سے، تو رازداری کی کوئی بات نھیں ہے۔‘’مجھے ایسا لگتا ہے کہ اپنا تجزیہ دے کر میں نے کسی کمزوری کو ظاہر کر دیا ہے یا دم پر پاو¿ں رکھ دیا ہے۔
میں نے ایک تجزیہ دیا جس کی بنیاد اس بات پر تھی کہ اگر میں اس وقت ہوتا تو کیا کرتا؟’انھوں نے کہا تھا کہ ‘فوج کے اندر کئی لوگوں نے اپنی کتابیں لکھیں اور کسی نے ان سے نھیں پوچھا کہ انھوں نے کیا لکھا ہے۔’’مجھے ریٹائرمنٹ کے وقت اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے کہا تھا کہ تمھیں خود دیکھنا ہے کہ اپنی بات کہاں تک لکھنی ہے اور کہاں تک نھیں۔ اپنا سینسر خود ہی کرو اور اصول بھی یہی ہے۔’80 سالہ اسد درانی پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہیں۔ انھیں 1988 میں بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس تعینات کیا گیا تھا۔ جبکہ 1990 میں انھیں بطور ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا۔ 1993 میں ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے پاکستان کے سفیر کے طور پر جرمنی اور سعودی عرب میں بھی اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔اسد درانی اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں، چاہے وہ ان کی چھپنے والی دو کتابوں میں موجود معلومات سے متعلق ہو یا پھر اسامہ بن لادن سے منسلک ان کے بیانات جنھیں وہ اپنا ‘تجزیہ’ کہتے ہیں۔
