At least 38 killed in Myanmar's deadliest day since coup,Chinese factories set on fire

میانمار:(اے یو ایس ) میانمار میں حکمران فوجی جنتا نے ملک کے سب سے بڑے شہر یانگون کے مختلف حصوں میں زبردست فوج مخالف مظاہروں اور مظاہرین کے ذریعہ چینی فیکٹریوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات کے بعد مارشل لا لگا دیا۔ اتوار کو سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 38 افراد کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔گزشتہ ماہ فوجی بغاوت کے بعد سول بالادستی کے حامی افراد کی جانب سے اقتدار پر فوج کے قبضے کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے جب کہ ہلاکت خیز کارروائیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔سیاسی قیدیوں کی معاونت کی ایک تنظیم نے، جو میانمار میں تشدد کا ڈیٹا مرتب کر رہی ہے، بتایا کہ اتوار کا دن احتجاج کرنے والوں کے خلاف سب سے مہلک دن ثابت ہوا اور اس روز فورسز کی کارروائیوں کے دوران 38 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ہلاک ہونے والے 34 افراد یانگون میں مارے گئے جب کہ امدادی گروپ اور مقامی میڈیا کے مطابق چار دیگر ہلاکتیں ریاست کیچن کے شہر پاکنت کے علاقوں باگو اور منڈالے میں رپورٹ ہوئی ہیں۔فوجی جنتا نے شورش زدہ دو آبادیوں ہلینج تھار یار اور ملحق شویپیتھا میں مارشل لا لگا دیا ہے۔سرکاری ٹی وی ‘ایم آر ٹی وی’ پر اتوار کو رات گئے جاری کیے گئے ایک بیان میں پہلی بار اصطلاح ‘مارشل لا’ کا استعمال کیا گیا اور اس میں مقامی پولیس کے بجائے مزید براہِ راست فوجی کنٹرول کا اعادہ کیا گیا ہے۔

جنتا نے علاقے میں چین سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد کی دکانوں پر حملہ کیا جس کے بعد حکام نے وہاں پر مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت میانمار کی فوج کی حمایت کر رہی ہے۔یاد رہے کہ پہلی فروری کو ملک میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو حراست میں لیا ہوا ہے۔دوسری جانب متعدد سیاسی رہنماو¿ں نے بغاوت کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور فوج کو چکمہ دے کر روپوشی اختیار کی ہوئی ہے۔چین نے ہلائینگ تہریار کے علاقے میں چینی فیکٹریوں پر ہونے والے حملے کے بعد میانمار میں حکام سے ان کے تحفط کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد وہاں پر مارشل لا نافذ کر دیا گیا تھا۔چینی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ مسلح افراد نے یانگون میں 10 چینی فیکٹریوں اور ایک چینی ہوٹل کو نشانہ بنایا اور متعدد چینی افراد کو زخمی کیا گیا۔میانمار میں چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ’پرتشدد کارروائیاں روکنے کے لیے مزید موثر اقدامات اٹھائیں اور چینی کاروبار اور چینی شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کریں۔‘علاقے میں سارے دن فائرنگ کا آواز سنائی دی جاتی رہی ہے جبکہ پولیس کے ایک افسر نے سوشل میڈیا پر پیغام میں بتایا کہ پولیس مظاہرین کے خلاف بھاری اسلحے کا استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی میڈیا اور ایک ڈاکٹر کا حوالے دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ میانمار کے شمالی شہر ہپکانت میں سکیورٹی فورسز نے ایک جوان شخص کو گولی مار کر ہلاک کیا۔جبکہ مقامی شاہدین اور رپورٹرز کے مطابق ایک اور نوجوان کو یانگون کے نواحی علاقے باگو میں ہلاک کیا گیا۔ مقامی میڈیا نے یہ بھی رپورٹ کیا ہے کہ تین مظاہرین کو یانگون میں احتجاج کے دوران ہلاک کیا گیا۔

عینی شاہدین اور بی بی سی برمیز کے مطابق سنیچر کو 12 مظاہرین کی ہلاکتیں کے بعد سے یہ تازہ ترین ہلاکتیں ہیں۔واضح رہے کہ میانمار جسے برما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یکم فروری سے فوجی بغاوت کے بعد سے ملک گیر مظاہروں اور احتجاج کی لپیٹ میں ہے۔یکم فروری کو ملک کی عسکری قیادت نے حکمران جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی سربراہ آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور انھیں حراست میں لے لیا تھا۔آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت این ایل ڈی کو گذشتہ برس کے عام انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھیں تاہم فوج کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی۔نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے وہ ارکان اسمبلی جو گرفتاری سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے نے کمیٹی فار رپریزنٹنگ یونین پارلیمنٹ (سی آر پی ایچ) کے نام سے ایک نیا سیاسی گروہ قائم کر لیا ہے۔مہانون خینگ تھان کو اس کا عارضی سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اور یہ سیاسی گروہ عالمی سطح پر میانمار کی حقیقی حکومت کے طور پر پہچان حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔روپوش سیاسی رہنما مہانون نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم فیس بک پر اپنے خطاب میں کہا کہ ‘ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے شہری ملک کے تاریک دور کے خلاف اپنی مزاحمت برقرار رکھیں۔’ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ایک وفاقی جمہوریت کی تشکیل کے لیے، جس میں تمام نسلوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی شامل ہوں، جو کئی دہائیوں سے آمریت کے طرح طرح کے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں، واقعتاً یہ چاہتے ہیں کہ ‘یہ انقلاب ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم اپنی کوششیں متحد اور ایک ساتھ رکھیں۔’ان کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ‘ماضی میں ہمارے اختلافات کے باوجود اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک ساتھ متحد ہو کر ہمیشہ کے لیے اس آمریت کا خاتمہ کر دیں۔’میانمار کی فوج سیاسی گروہ سی آر پی ایچ کو ایک غیر قانونی گروہ قرار دیتی ہے اور لوگوں کو خبردار کرتی ہے کہ اگر کسی نے اس جماعت کا ساتھ دیا تو اس سنگین غداری کے مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔آزاد عالمی مبصرین نے گذشتہ برس نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں فوج کے دھاندلی کے دعوے کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس الیکشن میں کوئی بے ضابطگیاں نہیں ہوئی تھیں۔

گذشتہ ہفتے فوج نے آنگ سان سوچی پر غیر قانونی طور پر چھ لاکھ ڈالرز اور گیارہ کلو سونا قبول کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے گئے اور این ایل ڈی کے اراکین نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔آنگ سان سوچی کو گذشتہ پانچ ہفتوں سے ایک نامعلوم مقام پر زیر حراست رکھا گیا ہے اور ان پر غیر قانونی طور پر ریڈیو وائرلیس کا سازو سامان رکھنے، کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے سمیت دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ملک میں فوجی بغاوت کے بعد سے ہی عسکری قیادت نے اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کے سلسلے کو بازور بازو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے باعث یہ مظاہرے پرتشدد ہو گئے ہیں اور اس میں درجنوں افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ جبکہ عالمی برادری نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔امریکہ نے ملک کی عسکری قیادت پر معاشی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے جبکہ امریکہ میں موجود میانمار حکومت کے ایک ارب ڈالرز کے سرکاری فنڈز تک رسائی کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ملک کی فوج نے اپنے جارحانہ اور پرتشدد اقدامات پر تنقید کو رد کرتے ہوئے ملک میں پرتشدد کارروائیوں کا الزام آنگ سان سوچی پر عائد کیا ہے۔