اسلام آباد: ( اے یو ایس ) حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن پر سینیٹ انتخابات میں فرائض کی انجام دہی میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے اور نئے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر دیا ہے۔وفاقی وزیر شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ‘تحریک انصاف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت ہے اسے بھی الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں رہا، اگر دوسری جماعتوں سے پوچھیں تو وہ بھی الیکشن کمیشن کی شکایت کرتی نظرآتی ہیں۔’سوموار کو اسلام آباد میں وفاقی وزرا شفقت محمود، شبلی فراز اور فواد چوہدری نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن ناکام ہو چکا ہے اور نیوٹرل امپائر کا کردار ادا نہیں کر رہا اس لیے اسے بحیثیت مجموعی استعفیٰ دے دینا چاہیے۔تاہم مسلم لیگ ن کی رہنما نے وفاقی وزرا کی طرف سے الیکشن کمیشن کے استعفے کے مطالبے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اگر حکومت کو ضمنی انتخابات میں کہیں سے کامیابی نھیں ملی تو اس میں الیکشن کمیشن کا کیا قصور ہے۔
ماہر قانون جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘حکومت کا یہ مطالبہ غیر منتطقی ہے‘۔ سینیئر صحافی ایم ضیاالدین نے بھی حکومتی مطالبے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔وفاقی وزیر شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ‘2021 کے سینیٹ انتخاب کے لیے ہم نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جس پر اعلیٰ عدلیہ نے کہا کہ اگر آپ نے ووٹنگ کا طریقہ کار بدلنا ہے تو اس کے لیے آئینی ترمیم ہونی ضروری ہے لیکن عدالت نے چند ہدایت اور آئین کے آرٹیکل 218(3) کا حوالہ دیا۔جس کے مطابق یہ الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہے کہ وہ انتخاب کا انتظام کرے، اسے منعقد کرائے اور ایسے انتظامات کرے جو اس امر کے اطمینان کے لیے ضروری ہوں کہ انتخاب ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق منعقد ہوا اور یہ کہ بدعنوانی کا سدباب ہو سکے۔’انھوں نے کہا کہ ‘ہم نے چیف الیکشن کمشنر سے وفد کی صورت میں ملاقات کر کے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ووٹ خفیہ رکھنے کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی اور اس کا کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہے کہ اگر آپ نے بدعنوان طریقوں کو روکنا ہے تو اس کا کوئی طریقہ بنایا جائے اور استدعا کی کہ ووٹ بیلٹ پر کوئی ایسی نشانی آجائے جو موقع پر موجود لوگوں کو بے شک نظر نہ آئے لیکن اگر بعد میں ضرورت پڑے تو اس کی تحقیق کی جا سکے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کو مسترد کردیا گیا اور کمیٹی بنا کر کہا گیا کہ مستقبل میں کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جائے گا۔’انھوں نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی ناکامی ہے، وہ اپنی ذمے داریوں کو نبھا نہیں سکا، کسی کو الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں رہا تو اس کا حل یہی ہے کہ الیکشن کمیشن موجودہ حالت میں نہیں چل سکتا اور بحیثیت مجموعی استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر کوئی اور طریقہ نہیں ہے کہ جس سے اعتماد بحال ہو سکے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے وفاقی وزرا کی جانب سے الیکشن کمیشن کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ الیکشن کمیشن سے معافی مانگنے کے بجائے حملہ آور ہوگئی ہے۔اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے اجلاس کے بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنے دور حکومت اور اس کے بعد سنتے آئے کہ مسلم لیگ (ن) اداروں پر حملہ آور ہوتی ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) کے خلاف بات الزامات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ مگر آج قوم کو سمجھ آگئی ہوگی کہ اداروں پر تنقید کیا ہوتی ہے اور اداروں پر حملہ آور ہونا کیا ہوتا ہے۔’انھوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر ڈسکہ، نوشہرہ، وزیرآباد یا سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں میں آپ کو ووٹ نہیں ملا تو اس میں الیکشن کمیشن کا کیا قصور ہے اور وہ بدلہ آپ الیکشن کمیشن سے کیوں لے رہے ہیں۔’ان کا کہنا تھا کہ اتنی بدترین دھاندلی شاید آمریت کے ریفرنڈم میں بھی نہیں دیکھی گئی، 20 پریزائیڈنگ افسر اغوا کرنے اور ادارے پر حملہ آور ہونے، ان کے عہدیداروں کو حبس بے جا میں رکھنے پر معافی مانگنے کی بجائے آپ الٹا اسی ادارے پر حملہ آور ہوگئے جس کے اراکین کو آپ نے خود تعینات کیا ہے۔’انھوں نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی بدترین دھاندلی کے باوجود آپ کو ووٹ نہیں ملے، لوگوں نے آپ کو مسترد کردیا ہے اورجو ڈسکہ میں ہوا، جس طرح فائرنگ کی گئی اور خوف و ہراس پھیلایا گیا اس کو پوری قوم نے دیکھا۔’پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو الیکشن کمیشن یا کسی آئینی ادارے سے شکایات اکثر اپوزیشن کرتی آئی ہے لیکن ایسا شائد پہلی مرتبہ ہے کہ حکمران جماعت ہی اپنے ایک آئینی ادارے کے سربراہ اور ممبران پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کیا حکومت ایسا کر سکتی ہے؟
ماہر قانون جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کے استعفے کے مطالبے پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ ‘حکومت کا یہ مطالبہ غیر منتطقی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کی مدت مقرر ہے، انھیں ہٹایا یا ان سے استعفیٰ نہیں لیا جا سکتا ماسوائے ان کے خلاف اختیارات سے تجاوز یا ان کے غلط استعمال کا الزام ہو۔”الیکشن کمیشن کے ارکان کی مدت ختم ہونے سے قبل ان کو ہٹانا ممکن نہیں اور یہ حکومت کی ایک عجیب سے بات ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے استعفے کا مطالبہ کرے۔’ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے یا ان کا غلط استعمال کیا ہے تو اس پر کارروائی کرنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم موجود ہے۔حکومت وہاں ان ارکان کے خلاف ایک قانونی درخواست دائر کر سکتی ہے۔ حکومت کو اپنی درخواست کے ساتھ الیکشن کمیشن کے ارکان کے خلاف تمام شواہد اور ثبوت بھی سپریم جوڈیشل کونسل کو فراہم کرنا ہوں گے۔اس درخواست پر سپریم جوڈیشل کونسل جائزہ لے کر فیصلہ دے سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا ‘اس وقت کی سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں بھی تناو¿ ہے، دوسری جانب اداروں کا اپوزیشن اور حکومت کے ساتھ بھی تصادم ہے۔ ایک جانب حکومت الزامات لگا رہی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن بھی ووٹ مسترد کرنے کے معاملے پر عدالت جانے کا کہہ چکی ہے۔’اس بارے میں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘وفاقی حکومت کا الیکشن کمیشن سے استعفے کا مطالبہ کرنا اس لیے غیر مناسب ہے کہ اگر آج ایک آئینی ادارے کے سربراہ اور ممبران پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کل کو آپ کسی بھی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر بھی اسی قسم کے عدم اعتماد کا اظہار کر دیں گے۔’
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس بھی وہ ہی اختیارات ہیں جو چیف جسٹس آف پاکستان یا سپریم کورٹ کے پاس ہوتے ہیں۔’سیاسی تجزیہ کار ضیا الدین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘ حکومت کا الیکشن کمیشن سے استعفے کا مطالبہ ناجائز ہے۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کو اگر ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے یا جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے تو اس حوالے سے عوامی سطح پر شواہد اور ثبوت فراہم کیے جائیں۔”الیکشن کمیشن نوٹس لیتے ہوئے وفاقی وزرا کو نااہل کر سکتا ہے’حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد اور استعفے کے مطالبے کی وجوہات کیا ہیں کہ سوال پر ضیا الدین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘دراصل یہ سارا مسئلہ ڈسکہ کے الیکشن سے پیدا ہوا ہے۔ حکومت الیکشن کمیشن پر دباو¿ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ آپ ڈسکہ کے الیکشن میں کچھ گڑبڑ کرنا چاہ رہ تھے اور ادارے نے آپ کو روک لیا۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کو ڈسکہ کے دوبارہ ہونے والے ضمنی انتخاب میں شکست کا خطرہ ہے اس لیے یہ شور مچا رہی ہے ورنہ ایسا شور نہ مچتا۔’سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ‘وزیر اعظم کے ارد گرد آئینی و قانونی مشیر اور ماہرین ان کو مناسب بریفنگ نہیں دے رہے اور انھیں یہ ایک راستہ دکھایا ہے کہ آپ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر سخت دباو¿ ڈالیں گے تو ہمارے رٹ مضبوط ہوگی جبکہ دراصل ایسا نہیں ہو گا اور اگر الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا تو ایک آئینی و سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر الیکشن کمیشن نے آج کی پریس کانفرنس پر وفاقی وزرا کو نوٹس جاری کر دیا اور وہ پیش نہ ہوئے تو ادارے کے پاس توہین عدالت کی طرح کے اختیارات ہیں اور وہ ان نااہل قرار دے سکتا ہے۔
اس سے حکومت کو نقصان نہیں ہو گا اور اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔’وفاقی وزرا کی جانب سے الیکشن کمیشن پر سپریم کورٹ کی ہدایات پر مکمل عمل درآمد نہ کرتے ہوئے اوپن بیلٹ کے لیے کوئی طریقہ کار وضع نہ کرنے کے الزام پر بات کرتے ہوئے کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ‘ سپریم کورٹ نے نہایت عمدہ رائے دی تھی جس میں قانون سازی کے ساتھ ساتھ کسی ایسی ٹیکنالوجی اپنانے کی رائے دی تھی جس سے ہارس ٹریڈنگ کا سدباب کیا جا سکے۔اس پر الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت سیکریٹ بیلٹنگ کو بھی مدنظر رکھنا ہے اور الیکشن کمیشن محدود وقت میں بیلٹ پیپر میں کسی قسم کی ترمیم کرنے کے وسائل اور اختیارات نہیں رکھتا۔’ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بنا اختیارات اور قانون سازی کے محدود وقت میں کیسے کام کر سکتا تھا، لہذا انھوں نے حکومت کی رائے پر مستقبل میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کے بارے میں ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔’ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے موقف کے مطابق اگر الیکشن کمیشن نے کوئی عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہوتی تو سپریم کورٹ خود ہی اس پر ایکشن لے لیتی۔ الیکشن کمیشن نے حکومت سے بارہا قانون سازی کرنے کا کہا جو آپ نہیں کر سکے اور اب الزام الیکشن کمیشن پر عائد کرنا غلط ہے۔’اس بارے میں ضیاالدین کا کہنا تھا کہ ‘یہ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کی بات ہے، عدالت عظمیٰ نے ایسے کوئی ہدایت یا رائے نہیں دی تھی کہ آئین کی خلاف ورزی کی جائے، آئین میں ووٹ کی سیکریسی بہت واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ حکومت اوپن بیلٹنگ کرنا چاہتی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح ایسے کر رہی ہے جیسے اس میں اوپن بیلٹنگ کا کہا گیا ہے جو کہ غلط ہے سپریم کورٹ نے ایسی کوئی رائے نہیں دی اور الیکشن کمیشن آئین کے تحت کام کرنے کا پابند ہے۔
