U.S. Defense Secretary Makes Secret Visit to Afghanistan

واشنگٹن:(اے یوایس )امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن گذشتہ روز اپنے پہلے دورہ افغانستان پر کابل پہنچے جہاں انہوں نے صدر اشرف غنی سمیت دیگر اعلٰی حکام سے امن عمل سمیت دیگر ا±مور پر تبادلہ خیال کیا۔امریکی وزیرِ دفاع کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغان امن معاہدے کے تحت امریکی اور اتحادی افواج کے یکم مئی تک افغانستان سے انخلا کی ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے۔ یہ معاہدہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس طے پایا تھا۔

اتوار کو لائیڈ آسٹن ہندستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد کابل پہنچے تھے جہاں انہوں نے افغان صدر کے علاوہ امریکی اور اتحادی فوجی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے مطابق دورے کے دوران آسٹن نے کہا کہ وہ ‘سننے اور سمجھنے’ آئے ہیں کہ صدر اشرف غنی کے تحفظات کیا ہیں۔پینٹاگون کے بیان میں کہا گیا ہے کہ آسٹن کی کابل میں ہونے والی ملاقاتوں میں افغانستان کی موجودہ صورت حال اور سالہا سال سے بدامنی کے شکار ملک میں دیرپا امن کے حصول کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔اپنے ہمراہ سفر کرنے والے میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے آسٹن نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ افغانستان میں تشدد کی سطح بہت بلند ہے۔ لہذٰا ہم یہ چاہیں گے کہ تشدد میں کمی ہو۔ا±ن کے بقول تشدد میں کمی کی صورت میں ہی تنازع کے سفارتی حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

آسٹن کا کہنا تھا کہ ا±نہوں نے جن شراکت داروں سے بھی یہاں بات کی ہےم، وہ سب جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔دوسری جانب امریکی وزیرِ دفاع سے ملاقات کے بعد افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ا±نہوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیا ہے۔گزشتہ ہفتے ‘اے بی سی’ ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا کی مئی کی ڈیڈ لائن کو مشکل قرار دیا تھا۔خیال رہے کہ بائیڈن کی نیشنل سیکیورٹی ٹیم گزشتہ سالہ ٹرمپ دور میں طے پانے والے دوحہ معاہدے کا ازسرِ نو جائزہ لے رہی ہے۔

امریکی وزیرِ دفاع کے دورہ کابل سے قبل بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نومبر تک افغانستان میں فوج رکھنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ ا±ن کے خیال میں طالبان دوحہ معاہدے پر عمل نہیں کر رہے۔البتہ ہفتے کو ہندستان میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے آسٹن نے ان رپورٹس کو محض قیاس آرائیاں قرار دیا تھا۔ا±ن کا کہنا تھا کہ اب تک فوج کے افغانستان میں قیام کی مدت میں توسیع کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔واضح رہے کہ اس وقت امریکہ کے 2500 فوجی افغانستان میں موجود ہیں جب کہ اس کی اتحادی افواج نیٹو کے بھی ہزاروں فوجی ملک میں تعینات ہیں۔ماسکو میں ہونے والی حالیہ افغان امن کانفرنس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ اگر امریکی اور اتحادی افواج یکم مئی تک افغانستان سے نہ نکلیں تو وہ بھرپور ردِعمل ظاہر کریں گے۔