Five suspects arrested in connection with killing of ATC judge in KP

خیبرپختونخوا:(اے یوایس )پاکستان کے صوبہ پختونخوا کے ضلع سوات میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج آفتاب آفریدی اور ان کے افراد خاندان کے قتل کی واردات میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبد اللطیف آفریدی اور بیٹے دانش آفریدی سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ۔پانچوں ملزموں کے خلاف مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302(قتل عمد) دفعہ324(اقدام قتل)،دفعہ148(مہلک اسلحہ سے لیس)دفعات 149,109(شریک جرم )دفعہ427(املاک کو نقصان)اور انسدا دہشت گردی قانون کی دفعہ7کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔جج آفتاب آفریدی کو ان کی اہلیہ اور خاندان کے دو افراد سمیت نامعلوم بندوق برداروں نے اتوار کے روز فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ یہ واقعہ شام چھ سے سات بجے کے درمیان موٹروے پر ضلع صوابی کی حدود میں پیش آیا تھا۔پولیس نے ان کے بیٹے عبد الماجد آفریدی کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ بی بی سی سے گفتگو میں ان کے بیٹے نے اپنے والد کے قتل کے حوالے کہا کہ ابھی فی الحال وہ اس معاملے پر کوئی بات نہیں کر سکتے۔

ضلع صوابی میں پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ گاڑی میں موجود جج آفتاب ان کی اہلیہ بی بی زینب ، 6ماہ کی حاملہ بہو کرن اور تین سالہ پوتے محمد صنعان ہلاک ہوئے ہیں جبکہ دو افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں محافظ اور ڈرائیور شامل ہیں۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جج آفتاب اپنے اہلِخانہ سمیت اسلام آباد سے سوات جا رہے تھے۔واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’انبار انٹرچینج سے دس کلومیٹر آگے یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ موٹر وے کی میں لائن پر دوسری جانب کی لائن سے گاڑی پر حملہ ہوا۔‘مقتولین کی لاشوں اور زخمیوں کو صوابی میں پاچا خان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا۔جج آفتاب آفریدی کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم ہو جانے والے قبائلی علاقے ضلع خیبر میں برقمبر خیل سے تھا۔انھیں رواں برس فروری میں ضلع سوات میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا جج مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ چیئرمین لیبر کورٹ تھے۔آفتاب آفریدی کے آبائی علاقے سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور معروف وکیل سپریم کورٹ ہار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی ہیں جنھیں اس واقعے کی ایف آئی آر میں بطور ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

تاہم ان کے نامزد ہونے سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ ’بظاہر ایسا کوئی حساس نوعیت کا مقدمہ نہیں جس کی وہ سماعت کر رہے ہوں یا فیصلہ نہیں جو انھوں نے حال ہی میں سنایا ہو لیکن جس انداز میں ان کو اور ان کے اہلخانہ کو قتل کیا گیا، اس میں اب دیکھا جائے گا کہ اس کی تفتیش سے کیا سامنے آتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ یہ موٹ وے پر واقعہ ہوا ہے اور اگر ذاتی دشمنی کی بات کی جائے تو ہم پٹھانوں میں یہ روایت نہیں کہ گھر کے بچوں اور خواتین کو بھی اس طرح قتل کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ عموماً ہمارے ہاں اس قسم کے مقدمات آتے ہی نہیں ہیں۔پشاور سے تعلق رکھنے والے سنیئر وکیل رہنما نور عالم ایڈوکیٹ نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ اب تک ججز پر دہشت گردی کے آٹھ کے قریب حملے ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حملے سے لگتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے تربیت یافتہ لوگ تھے۔انھوں نے کہا کہ پولیس اس کیس کی تفتیش میں دو زاویوں سے دیکھے گی کہ کیا یہ ذاتی دشمنی میں تو نہیں ہوا یا پھر اس کا تعلق ان کی نوکری سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جج آفتاب کی علاقے میں دشمنیاں بھی ہیں لیکن جب کوئی شخص ڈیوٹی کی ادائیگی کے لیے جا رہا ہو اور اس پر حملہ کیا جائے تو اس نکتے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اور جج آفتاب اسلام آباد سے سوات جا رہے تھے جہاں وہ ان دونوں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جج کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔‘’وکلا اور ججز کو الگ کریں تو تقریبا آٹھ کے قریب ججز کے اوپر حملے ہوئے اور بارہ سے لے کر اٹھارہ حملوں میں وکلا کو نشانہ بنایا گیا۔‘وزیراعظم عمران خان نے جج آفتاب کے قتل کی مذمت کی ہے۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے بھی واردات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ متاثرہ خاندان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور انہیں پورا انصاف دیا جائے گا۔