Reknowned cleric and accademician Anis Chishti passes away

پونہ:(اے یو ایس) ماہر تعلیم، دانشور ،مفکر اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر انیس چشتی کا 79 سال کی عمر میں پونہ میں انتقال ہوگیا۔ انیس چشتی کے اہل خانہ کے مطابق انہیں کوویڈ 19 کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔ علاج کے دوران اعظم کیمپس پونہ میں واقع یونانی اسپتال میں آخری سانسیں لی۔ 5 اپریل بروز پیر بعد نمازِ عشاءپونہ کے محمد جامع حسینی قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ انیس چشتی کے انتقال کی خبر پھلتے ہی سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات کا تانتا لگ گیا۔ کئی اہم شخصیات نے اظہارِ غم کرتے ہوئے انیس چشتی کی علمی اور ملی خدمات کا اعتراف کیا۔

انیس چشتی 6 فروری 1943 میں پونہ میں پیداہوئے۔ ان کے والد شکیل احمد مجاہدِ آذادی تھے۔ انیس چشتی کی تعلیم پونہ اور شولاپور میں ہوئی۔ پونہ اعظم کیمپس کے روحِ رواں پی اے انعامدار نے انیش چشتی کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے ان کی رحلت کو ملت کا نقصان قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انیس چشتی اسلامیات اقبالیات اورعلم و ادب میں اتھارٹی تسلیم کئے جاتے تھے۔ پونہ سے تعلق رکھنے والے منور پیر بھائی نے انیس چشتی کے انتقال کو ملی خسارہ قراردیتے ہوئے کہاکہ نہایت ہی قابل اور دانشورانہ صفات کی حامل شخصیت تھے۔ کئی ممالک کا سفر کیا۔ ان کی اسلام اور اقبالیات پر گہری نگاہ تھی۔ انہوں نے انیس چشتی کے انتقال کو اپنا ذاتی نقصان قراردیا۔انیس چشتی کے بھانجے طلحہ نے بتایا کہ مولانا ولی رحمانی کے انتقال کے بعد مولانا رابع حسنی ندوی سے ملاقات کرنے کیلئے لکھنؤ ندوہ العلماءتشریف لے گئے تھے۔

سفر سے واپسی کے بعد ان کی طبیعت بگڑی اور 5 اپریل کو شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انیس چشتی کی شخصیت گوناگوں صفات کی حامل شخصیت تھی۔ وہ دارلعلوم ندوة العلماءلکھنو¿ کے مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علی میاں ندوی کے نہایت ہی قریبی اور کل ہند تحریکِ پیام انسانیت کے جنرل سیکرٹری تھے۔ درجنوں اردو، مراٹھی، انگریزی کتابوں کے مصنف، مو¿لف، مترجم تھے۔ ان کی کتابوں کے ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ وہ اقبالیات کے ماہر، فن خطاطی کے استاد، اسلامک اسکالر، اور ماہر تعلیم کے علاوہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اردو کے علاو¿ہ مراٹھی زبان میں بھی ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے کتب فروش مرزاعبدالقیوم نے بتایا کہ انیس چشتی سے ان کے انتقال سے دوروز قبل ہی بات ہوئی تھی۔ان کی 40 سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

انیس چشتی کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ جن میں اردو، مراٹھی، ہندی،انگریزی، عربی، فارسی اور بھی دیگر زبانیں شامل تھیں۔ وہ بہت اچھے انسان، ذی علم شخصیت، ایک اچھے استاذ، ایک اچھے خوش نویس، ایک معتبر اہل قلم، ایک خوش بیاں مقرر، اعلیٰ افسران کے تربیتی اداروں کے پینل میں شامل گیسٹ لیکچرار تھے۔ ان کی تعلیم، جنگ آزادی میں مسلمانوں کی خدمات اور دیگر موضوعات پر بے شمار کتابیں شائع ہوکر داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ کئی ملکوں میں ان کی ترتیب کردہ اردو اور انگریزی زبان کی کتابیں اسکول اور کالجوں کے نصاب میں شامل ہیں۔وہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن، کالج آف ملٹری انجنئیرنگ میں فوجیوں کو تربیت دیا کرتے تھے۔ انہوں نے اسلامیات اور علمی و ادبی موضوعات پر ملک کے مختلف حصوں میں خطبات اور لیکچرس پیش کرچکے ہیں۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیٹی ہے اور چار بھائی شامل ہیں۔