عمان:(اے یوایس )اردن میں حکومت مخالف حالیہ ناکام سازش کے دوران میں سابق ولی عہد اور شاہ عبداللہ دوم کے سوتیلے بھائی شہزادہ حمزہ بن حسین اور آرمی چیفےوسف الحنےطی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی کی ایک آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز سے منگل کے روز منظرعام پر آئی ہے۔اس ریکارڈنگ میں چیف آف سٹاف جنرل یوسف حنیطی کو شہزادہ حمزہ کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ”وہ سوشل میڈیا پر مواد پوسٹ کرنے سے گریز کریں اور سماجی مواقع پر بولنے سے گریز کریں کیونکہ اس طرح لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملے گا۔“العربیہ ازخود اس آڈیوریکارڈنگ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کرسکتا۔تاہم شہزادہ حمزہ کی آواز قابل شناخت ہے اور ان کی آرمی چیف سے تلخ گفتگو ان کے ہفتے کے روز بی بی سی کو جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام ہی کا تسلسل ہے۔
اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ”وہ گھر(محل) میں نظربند ہیں،ان سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ گھر ہی میں مقیم رہیں اور کسی سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں۔“اس آڈیو ریکارڈنگ میں جنرل ےوسف الحنےطی یہ کہتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں:”میں جناب شہزادہ صاحب سے یہ کہنا چاہتاہوں کہ وہ آج سے تقریبات میں جانا بند کردیں، لوگوں سے ملاقاتیں موقوف کردیں،صرف اپنے خاندان تک محدود رہیں اور ان کی جانب سے کوئی ٹویٹس نہیں ہونی چاہییں۔“اس کے بعد حمزہ کو وہاں موجود افراد سے یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ آرمی چیف کی کار کا گھیراو¿ کرلیں۔پھر وہ ان سے مخاطب ہوکر یہ کہتے ہیں:”آپ مجھے یہاں یہ کہنے کے لیے آئے ہیں کہ میں اپنے ہی ملک میں کیا کروں اور کیا نہیں کروں۔آپ مجھے یہاں ڈرانے دھمکانے کے لیے آئے ہیں۔یہ سب کیا ہے؟آپ مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں لوگوں سے ملنے کے لیے نہیں جاؤں۔
سکیورٹی سروسز کے سربراہان مجھے ڈرا دھمکا رہے ہیں؟“ےوسف الخطی اس الزام کے جواب میں کہتے ہیں:“ ہم آپ کو ڈرا دھمکا نہیں رہے ہیں۔“پھر حمزہ کہتے ہیں:” ملک میں بدانتظامی کیا میری غلطی ہے؟جو کچھ غلط ہورہا ہے، وہ بھی میری غلطی ہے؟آپ مجھے میرے ہی گھر میں یہ سب کچھ کہنے آئے ہیں اور سکیورٹی سروسز کے سربراہان مجھے ڈرا دھمکا رہا ہے؟ آپ مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ”میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلوں،اپنے خاندان کے سوا کسی سے ملاقات نہیں کروں اور نہ کوئی ٹویٹ کروں؟“پھرشہزادہ حمزہ کہتے ہیں:”سر! آپ اپنی کار میں بیٹھیے اور یہاں سے چلے جائیے۔معاف کیجیے۔ میں آپ کا اور آپ کے ادارے کا احترام کرتا ہوں لیکن آپ مجھ سے اس انداز میں گفتگو نہیں کرسکتے۔آپ اپنی کار میں بیٹھیں اور اس گھر سے واپس چلے جائیں۔“پھر وہ یوں گویاہوتے ہیں:” میں اردن کا ایک آزاد شہری ہوں۔اپنے باپ (شاہ حسین)کا بیٹا ہوں۔مجھے اپنے ملک کے لوگوں سے گھلنے ملنے کا حق حاصل ہے۔مجھے اپنے ملک کی خدمت کرنے کا حاصل ہے۔
میں نے اپنے باپ کے سامنے اس کا وعدہ کیا اور حلف اٹھایا تھا،جبکہ وہ بسترِ مرگ پر تھے۔“اردن کے سابق ولی عہد پھرآرمی چیف سے سوال پوچھتے ہیں:” آپ20 سال قبل کہاں تھے؟ مجھے میرے باپ کے حکم سے ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔میں نے ان کے سامنے تادم آخر اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی خدمت جاری رکھنے کا عزم کیا تھا۔“اس کے جواب میں آرمی چیف کہتے ہیں:” سر! ہم آپ کو ڈرا دھمکا نہیں رہے ہیں۔ ہم آپ سے صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے س±رخ لکیریں عبور کرلی ہیں۔“شہزادہ حمزہ اس آڈیو ریکارڈنگ میں ان الفاظ میں اپنی گفتگو ختم کرتے ہیں:” آیندہ میرے گھرآئیں اور نہ مجھے میرے ہی گھر میں دھمکیاں دیں۔یہ حسین کا گھر ہے۔ اللہ آپ کی مدد کرے۔“شہزادہ حمزہ نے قبل ازیں اسی ہفتے یہ کہا تھاکہ ”مجھے اردن کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف ،پولیس کے سربراہ اور سکیورٹی سروسز کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
میں صرف اپنے خاندان سے مل سکتا ہوں ،مجھے کوئی ٹویٹ نہیں کرنی چاہیے اور میں لوگوں کے ساتھ کوئی رابطہ وابلاغ نہیں کرسکتا۔“انھوں نے یہ بات زور دے کرکہی تھی کہ وہ کسی غیرملکی سازش کا حصہ نہیں ہیں۔ انھوں نے حکمرانی کے نظام کو بدعنوان قرار دے کر اس کی مذمت کی تھی۔اردنی فوج نے ہفتے کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ سابق ولی عہد کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرے کا موجب اقدامات سے بازآجائیں۔آرمی چیف یوسف حنیطی نے شہزادہ حمزہ کی گرفتاری سے متعلق اطلاعات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ”انھیں صرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ ایسی سرگرمیوں کو روک دیں جن سے اردن کی سلامتی اور استحکام کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔“لیکن انھوں نے ایسی کوئی وضاحت نہیں کی تھی کہ شہزادہ حمزہ کی ایسی ملکی سالمیت کے منافی قابل اعتراض سرگرمیاں کون سی ہیں؟اردن میں سکیورٹی حکام نے ہفتے کے روز سابق ولی عہد شہزادہ حمزہ کو ملک میں گڑبڑ پھیلانے کی سازش کے الزام میں ان کے محل میں نظربند کردیا تھا اور شاہی دیوان کے سابق سربراہ اور سابق وزیرخزانہ باسم عوض اللہ سمیت بیس افراد کو گرفتارکرلیا تھا۔حکام کا کہنا تھا کہ ان افراد کی سرگرمیاں ملکی استحکام وسلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہیں،اس لیے انھیں حراست میں لیا گیا ہے اور ان کے خلاف اب تحقیقات کی جائے گی۔
