سہیل انجم
سال 2020 کے اوائل میں جب کورونا وائرس نے ہندوستان کے دروازے پر دستک دی تھی تو کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ یہ مرض اتنا مہلک اور اتنا خطرناک ثابت ہوگا۔ اس وائرس کے ابتدائی ایام میں تو لوگوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی لیکن جب مارچ آتے آتے کرونا کے مریضوں اور اس سے ہونے والی اموات کی تعداد نے رفتار پکڑ لی تو پورے ملک میں خوف و ہراس کی ایسی فضا چھا گئی جیسی پہلے کبھی دیکھی نہیں گئی تھی۔ وزیر اعظم نے پہلے ایک روز کے جنتا کرفیو کا اعلان کیا اور پھر 21 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ عوام نے کرفیو کی بھی پابندی کی اور لاک ڈاؤن کی بھی۔ البتہ لاک ڈاو¿ن کے نتیجے میں ملک میں ایک ایسا انسانی بحران پیدا ہوا جس نے تمام دنیائے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں مہاجر مزدور اپنی اور اپنے اعزا کی زندگی بچانے کی خاطر سڑکوں پر نکل پڑے۔ ایک عرصے تک پورے ملک میں عجیب و غریب صورت حال رہی۔ جانے کتنے مزدوروں نے سڑکوں اور ریل کی پٹریوں پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ کتنے تو بھوک کی وجہ سے دم توڑ بیٹھے۔ اس صورت حال نے صرف مہاجر مزدوروں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ عام انسان بھی اس کے شکار بنے۔
ہزاروں افراد کی نوکریاں چلی گئیں اور لاتعداد لوگوں کے سامنے روزی روٹی کے لالے پڑ گئے۔ ملکی معیشت تباہ و برباد ہو گئی۔ اس کا اثر اتنا سنگین تھا کہ ابھی تک معیشت کی گاڑی اپنی پٹری پر نہیں آسکی ہے۔اسی دوران رمضان المبارک کا مہینہ آگیا۔ اس وقت کرونا اپنے عروج پر تھا۔ مسلمانوں کے دلوں میں یہ اندیشہ تھا کہ انھیں مسجدوں میں جانے نہیں دیا جائے گا اور خدا نہ کرے کہ انھیں نماز تراویح گھروں میں ادا کرنی پڑے۔ مسلمانوں کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ حکومت کی جانب سے عاید کردہ پابندیوں کی وجہ سے عبادت گاہیں سونی ہو گئیں اور تمام مذاہب کے لوگ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے سے محروم ہو گئے۔ مسلمانوں کے سامنے بھی یہ مسئلہ آیا اور انھوں نے مسجدو ںکو آباد کرنے کے بجائے اپنے گھروں میں ہی نمازوں کا اہتمام کیا۔ پنج وقتہ نمازیں تو گھروں پر ہو ہی رہی تھیں تراویح کی نماز بھی لوگوں نے گھروں میں ادا کی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی اکثریت نے عید کی نماز دوگانہ بھی اپنے گھروں میں ادا کی۔ صرف ہندوستان میں یہ مسئلہ نہیں تھا بلکہ پوری دنیا میں تھا۔ یہاں تک کہ حرمین شریفین کو بھی بند کر دیا گیا۔ تاریخ عالم کا شاید یہ ایسا پہلا واقعہ تھا کہ حرمین شریفین کے دروازے مقفل کر دیے گئے۔ پوری دنیا ٹھپ ہو کر رہ گئی۔ آمد و رفت کا سلسلہ رک گیا۔ لوگ اپنی اپنی اپنی جگہوں پر منجمد ہو گئے۔رفتہ رفتہ صورت حال نے کروٹ بدلی اور بعض ملکوں میں حالات بہتری کی طرف مائل ہونے لگے۔
ہندوستان میں بھی حالات بہتر ہونے لگے اور کرونا مریضوں کی تعداد دن بہ دن کم ہونے لگی۔ یہاں تک کہ چوبیس گھنٹے میں مریضوں کی تعداد بس چند ہزار تک رہ گئی جبکہ کرونا کے عروج کے زمانے میں یہ تعداد تقریباً ایک لاکھ یومیہ تک پہنچ گئی تھی۔ مریضوں کے صحت یاب ہونے کی شرح بڑھنے اور شرح اموات کم ہونے لگی۔ لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ چلو اس عالمی وبا سے نجات ملی۔ زندگی کی رونق لوٹنے لگی، عبادت گاہیں آباد ہونے لگیں اور کاروباری سرگرمیوں کی گاڑی نے رفتار پکڑنی شروع کر دی۔ وہ مہاجر مزدور جو اس عزم کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے تھے کہ اب وہ شہروں کا رخ نہیں کریں گے روزی روٹی کی ضرورت نے انھیں پھر شہروں کی جانب دھکیل دیا۔ ابھی لوگ سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ کرونا کو پھر جوش آگیا۔ اس نے سوچا کہ انسانوں نے مجھے پہچان لیا ہے۔ مجھے ختم کرنے کے لیے ویکسین تیار کر لی ہے۔ لہٰذا کچھ ایسا کیا جائے کہ اس بار لوگ پکڑ ہی نہ سکیں۔ اس نے اپنی شکل و شباہت بدل دی۔ اب اسے پہچاننا مشکل ہو گیا۔ اس بار اس کی ہلاکت خیزی مزید شدید ہو گئی۔ پھر اسپتال مریضوں سے بھرنے لگے۔ اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اسپتالوں میں بستروں کی پھر قلت پڑنے لگی ہے۔ پھر لاک ڈاون کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ اب تو ہندوستان میں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد تقریباً پونے دو لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ادھر پھر رمضان کا مقدس مہینہ آگیا ہے۔ پھر کرونا نے انسانی جانوں کی پونجی لوٹنی شروع کر دی ہے۔ ابھی پندرہ بیس روز قبل جب کرونا مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی تو مسلمانوں میں پھر یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اس بار بھی رمضان کا مبارک مہینہ گھروں میں نہ گزارنا پڑے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بار بھی مسجدوں میں نماز تراویح کی ادائیگی سے محرومی ہو جائے۔ اِس بار پھر یہ اندیشہ درست ثابت ہوا اور پھر وہی ماحول بن گیا جو گزشتہ سال تھا۔
بلکہ گزشتہ سال سے بھی زیادہ سنگین صورت حال ہو گئی ہے۔ گزشتہ سال تو مریضوں کی انتہائی تعداد یومیہ تقریباً ایک لاکھ تھی لیکن اب یومیہ ایک لاکھ ستر ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ ابھی کہا نہیں جا سکتا کہ یہ تعداد کہاں جا کر رکے گی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ نصف اپریل میں کرونا اپنے عروج پر پہنچ جائے گا۔ اب یہ پتہ نہیں یہ عروج ہے یا زوال ہے۔ ممکن ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ اب اس میں کمی آنے لگے۔ لیکن کچھ بھی ہو اس بار بھی رمضان کا مبارک مہینہ خانہ قید کی صورت میں گزرے گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ حالات کو بہتر کرے اور کوئی بات نہیں مسلمان ایک بار پھر اپنے گھروں میں ہی تراویح کی نماز ادا کر لیں گے لیکن اب تو یہ قہر خداوندی ختم ہو جانا چاہیے۔ اس ایک سال کے درمیان جانے کتنے لوگ دنیا سے چل بسے۔ یہ یاد نہیں پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی ایک سال کے درمیان اتنی اہم مذہبی، علمی وادبی شخصیات نے عالم فانی سے عالم بقا کے لیے رخت سفر باندھا ہو۔ چار اپریل 2020 سے لے کر پانچ اپریل 2021کے درمیان اتنی علمی شخصیات دنیا سے اٹھ گئیں کہ اگر ان کی صرف فہرست سازی کی جائے تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ چار اپریل 2020 کو طنز و مزاح کے معروف شاعر اسرار جامعی کا دہلی میں انتقال ہوا جو ایک عرصے سے صاحب فراش تھے۔ چار اپریل 2021 کو ماہنامہ شاعر کے مدیر افتخار امام صدیقی دنیا سے چل بسے اور پانچ اپریل 2021 کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے مرکز برائے مطالعات اردو ثقافت و نظامت ترجمہ و اشاعت کے ڈائرکٹر پروفیسر ظفر الدین کا اچانک حیدرآباد میں انتقال ہو گیا۔ اس سے دو روز قبل یعنی تین اپریل کو ملک کے جید عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا سید ولی رحمانی دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اور چھ اپریل کو ماہر تعلیم رفیق زکریا مرحوم کی بیوہ ماہر تعلیم فاطمہ زکریا نے بھی رخت سفر بادھ لیا۔ اس سے ایک روز قبل یعنی پانچ اپریل کو معروف دانشور ادیب و مصنف پروفیسر انیس چشتی رخصت ہو گئے ۔
جبکہ اس ایک سال کے دوران جو اہم شخصیات ہم سے جدا ہو گئیں ان میں شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر کلب صادق، مفتی سعید احمد پالنپوری دیوبند، گلزار دہلوی، پروفیسر ولی اختر ندوی ڈی یو، مولانا رفیق قاسمی (جماعت اسلامی)، حافظ محمد یحییٰ چھابڑا (سابق امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند)، پروفیسر مظفر حنفی، عظیم امروہوی، طنز و مزاح نگار نصرت ظہیر، پروفیسر ظفراحمد صدیقی، کانگریس رہنما احمد پٹیل، مولانا جنید بنارسی، قاضی رشید مسعود، ڈاکٹر حنیف ترین، مرکز الدعوة الاسلامیہ ڈومریا گنج کے بانی ڈاکٹر عبد الباری، مولانا محمد مقیم فیضی ممبئی اور معروف حکیم عبد الحنان دہلی قابل ذکر ہیں۔ جبکہ اس قافلے میں شامل ہونے والوں میں مدارس و مکاتب میں تدریسی، تصنیفی و علمی خدمات انجام دینے والی ایسی بے شمار شخصیات بھی ہیں جن میں سے کئی کو نابغہ¿ روزگا رکا درجہ حاصل تھا۔ جانے والوں میں متعدد شخصیات کرونا جیسی خطرناک وبا کی شکار ہوئیں تو کئی اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر دنیا سے سدھار گئے۔
اب چند باتیں پروفیسر ظفرالدین کے بارے میں۔ ظفرالدین مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد جانے سے قبل دہلی کے روزنامہ قومی آواز میں تھے۔ وہ اس اخبار میں بطور کاتب آئے تھے۔ اس وقت تک ان کی تعلیم زیادہ نہیں تھی۔ لیکن انھوں نے محنت کی اور اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ گریجویشن کیا، پوسٹ گریجویشن کیا اور پھر پی ایچ ڈی کی۔ میں جس وقت قومی آواز میں پہنچا وہ شعبہ¿ کتابت سے شعبہ¿ رپورٹنگ میں جا چکے تھے۔ اخبار کے ایڈیٹر موہن چراغی میں یہ خوبی تھی کہ اگر کوئی باصلاحیت ہے تو وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ وہ تعلیم کے حصول کے بڑے طرفدار تھے۔ اسی لیے جب انھوں نے دیکھا کہ ظفر الدین کتابت کے ساتھ ساتھ اپنی عصری تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں تو کچھ لوگوں کی سفارش پر انھوں نے انھیں شعبہ رپورٹنگ میں بھیج دیا۔ پہلے وہ دہلی یونیورسٹی کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرتے رہے اور پھر بعد میں دوسرے میدانوں کی بھی رپورٹنگ کی۔ دفتر قومی آواز کے بڑے سے ہال میں ایک طرف کاتب بیٹھتے تھے اور دوسری طرف ایڈیٹر، سب ایڈیٹر اور پروف ریڈر بیٹھتے تھے۔ شام میں کام ختم ہونے کے بعد سب ایڈیٹروں کی ڈیسک پر کاپی جوڑی جاتی تھی۔ اس ہال کے تین اطراف میں گیلری تھی اور ایک گیلری سے متصل کئی کمرے تھے۔ جن میں سے ایک کمرے میں جو کہ شفٹ انچارج کی پشت کی جابب تھا بیورو تھا۔ اس میں نمائندہ خصوصی شاہد پرویز، چیف رپورٹر نصرت ظہیر، رپورٹر چندر بھان خیال اور ظفر الدین بیٹھتے تھے۔
چونکہ شاہد پرویز سے میرے اچھے تعلقات تھے اس لیے کام سے فارغ ہو کر میں اس کمرے میں پہنچ جاتا اور وہاں ہونے والی گفتگو سے لطف اندوز ہوتا۔ وہیں ظفر الدین کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا۔ اس وقت تک ان کی پی ایچ ڈی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ کچھ دنوں میں انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہو گئی اور وہ ڈاکٹر ظفرالدین ہو گئے۔ اسی درمیان حیدرآباد میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ ا س کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر محمد شمیم جیراجپوری مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر جیراجپوری جناب شاہد پرویز کے قریبی رشتے دار ہیں۔ ان کی کوششوں سے ظفر الدین کا تقرر یونیورسٹی میں ہو گیا اور وہ وہاں کے پہلے پبلک ریلیشن آفیسر (پی آر او) بنائے گئے۔ اس کے بعد جب ترجمے کا شعبہ قائم ہوا تو انھیں اس کاسربراہ بنا دیا گیا۔ پھر تو انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور کئی شعبوں کے ذمہ دار ہو گئے۔ سال 2019 میں وہاں ایک سمینار میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے ظفر الدین صاحب کو فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ ان دنوں میں وہ حیدرآباد سے باہر رہیں گے۔ لیکن بہرحال ان سے برابر رابطہ قائم رہا۔ وہ یونیورسٹی کا سہ ماہی ادبی رسالہ ”ادب و ثقافت“ جس کے وہ مدیر بھی تھے برابر بھیجتے رہے۔
پانچ اپریل کو دن میں صحافی معصوم مرادآبادی نے فون کرکے کہا کہ ظفر الدین کے انتقال کی خبر سنی ہے، ذرا ان کے بھائی پروفیسر شہزاد انجم سے کنفرم کیجیے۔ میں نے شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسر شہزاد انجم کو فون کیا تو انھوں نے پہلا جملہ یہی کہا کہ بھائی سہیل انجم دعائے مغفرت کیجیے۔ اس سے آگے کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں نے سابق قومی آواز کے متعدد کارکنوں کو بذریعہ فون اس ناگہانی موت کی اطلاع دی۔ میرے پاس بھی کئی لوگوں کے فون آئے۔ ظفر الدین کی عمر کوئی زیادہ نہیں تھی۔ یہی کوئی 54 سال۔ عمر کے اس عرصے میں انھوں نے بڑے کام کیے اور کامیابی کے متعدد مراحل طے کیے۔ اگر ان کی زندگی کے ایام کچھ اور ہوتے تو وہ یقیناً کچھ اور بھی نمایاں کارنامے انجام دیتے۔ اللہ تعالی ان کے بھی درجات کو بلند فرمائے اور انھیں بھی جنت الفردوس میں مقام عطا کرے۔ آمین۔
