ماسکو: (اے یوایس ) پاکستان گذشتہ کئی برسوں سے روس سے ایس یو 35 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن روس اور انڈیا کے دیرینہ تعلقات ہر بار اس اہم دفاعی سودے کی راہ میں آڑے آتے رہے ہیں۔لیکن روسی اور پاکستانی دفاعی ماہرین ناصرف روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف کے انڈیا اور پاکستان کے حالیہ دورے بلکہ پاکستانی بری فوج کے سربراہ کی جانب سے انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی بالواسطہ پیشکش کو بھی اس سودے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔
گذشتہ تین برس کے دوران جب بھی پاکستانی فوج نے روس سے جدید ترین ہتھیار خریدنے کے لیے بات چیت کا آغاز کیا تو اس سے پہلے پاکستانی فوج کی قیادت نے ہر مرتبہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنے روایتی حریف انڈیا کو امن کی پیشکش کی اور بات چیت کا پیغام دیا۔ایسا پہلی مرتبہ تین برس قبل ہوا جب پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 24 اپریل 2018 کو ماسکو کا دورہ کیا جسے روسی اور پاکستانی میڈیا کے بیانات میں دونوں ممالک میں ’وسیع تر فوجی تعاون‘ سے تعبیر کیا گیا۔عام روش اور چلن کے برعکس انھوں نے اسی اثنا میں انڈیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پڑوسی ملک کو امن مذاکرات کی پیشکش کی۔
اسی طرح جب جنرل قمر جاوید باجوہ اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر دونوں ممالک سے قریبی دفاعی اور فوجی تعاون پر بات چیت کر رہے تھے تو پاکستانی فوج کے سربراہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر انڈیا کو یقین دہانی کروائی، جس کا اظہار مسلح افواج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ پریس نوٹ سے ہوا۔اس اعلامیے کے مطابق جنرل قمر باجوہ نے کہا کہ خطے کے کسی بھی ملک کے خلاف پاکستان کے کوئی ’جنگی عزائم‘ نہیں ہیں۔
یہ حالات کا تقاضا محسوس ہوتا ہے جس کے تحت روسی ملٹری صنعتی کمپلیکس کو اپنے سیاسی آقاو¿ں سے ان روسی ساختہ لڑاکا طیاروں ’ایس یو۔35‘ کی فروخت کی منظوری حاصل کرنا ہے، جن کی خریداری میں پاکستان کی فضائیہ نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔
پاکستان کی فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل سہیل امان جولائی 2016 میں خاص طور پر ماسکو گئے تاکہ روسی فوجی حکام سے مطلوبہ اسلحہ کی خریداری کی بات چیت کر سکیں۔اگست 2018 میں روسی ہوا باز تجرباتی بنیادوں پر متعدد ’ایس یو۔35‘ پاکستان میں اڑا رہے تھے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ پاکستانی ملٹری اور روسی فیڈریشن کے ملٹری صنعتی کمپلیکس کے درمیان اس جدید ترین لڑاکا طیارے کی نامعلوم تعداد میں خریداری کے لیے بات چیت جاری ہے۔
