Pakistan govt decides to ban radical Islamist party Tehreek-i-Labaik Pakistan

اسلام آباد:(اے یو ایس )پاکستان میں حکومت نے مذہبی جماعت ‘تحریک لیبک پاکستان’ (ٹی ایل پی) پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کی سفارش پر ٹی ایل پی پر پابندی کی سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کی جا رہی ہے۔بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر بد امنی پھیلانے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ایل پی پر 1997 کے انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی شق 11 بی کے تحت پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے ٹی ایل پی کے مطالبات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ایسا مسودہ چاہتے ہیں کہ یورپ کے سارے لوگ ہی واپس چلے جائیں۔شیخ رشید احمد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے کبھی تحریک لبیک پاکستان کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی وہ کبھی اس تنظیم کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے ملے۔وزیرِ داخلہ نے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان کے پر تشدد مظاہروں کے دوران دو پولیس اہلکار ہلاک جب کہ 340 زخمی ہوئے۔واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کی پیر کو گرفتاری کے بعد ان کے کارکنوں کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے گئے تھے۔ٹی ایل پی کے مظاہروں کے باعث ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی جب کہ پولیس نے درجنوں افراد کو حراست میں لیتے ہوئے مقدمات بھی درج کیے۔

پنجاب حکومت نے امن و امان کی صورتِ حال برقرار رکھنے کے لیے رحیم یار خان، چکوال، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ میں بھی رینجرز کو طلب کیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں پہلے ہی رینجرز کو طلب کر لیا گیا تھا۔لاہور پولیس نے سعد حسین رضوی سمیت تحریک لبیک کے کئی کارکنوں کے خلاف لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کیا ہے۔ مقدمات میں قتل، اغوا، توڑ پھوڑ اور امن و امان کو نقصان پہنچانے سے متعلق دفعات شامل کی گئی ہیں۔ٹی ایل پی کی جانب سے پیر سے شروع ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ منگل اور بدھ کو بھی جاری رہا۔ جس کے باعث ملک کی کئی اہم سڑکیں بند ہوئی ہیں اور ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

تحریک لبیک نے فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر پاکستان سے فرانس کے سفیر کو 16 فروری تک بے دخل کرنے اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی فروری میں اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ان کی حکومت ٹی ایل پی کے مطالبات کو 20 اپریل کے بعد پارلیمنٹ میں لے کر جائے گی۔اس سے قبل ٹی ایل پی نے مذکورہ معاملے پر ماضی میں طے پانے والے ایک معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی جسے 11 جنوری کو طے پانے والے نئے معاہدے کے بعد ملتوی کر دیا گیا تھا۔11جنوری کو ہونے والے معاہدے میں حکومت کی نمائندگی وفاقی وزیرِ مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کی تھی۔ ٹی ایل پی کی نمائندگی کرنے والوں میں غلام غوث، ڈاکٹر محمد شفیق، غلام عباس اور محمد عمیر شامل تھے۔