واشنگٹن:(اے یو ایس)امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن غیر اعلانیہ دورے پر جمعرات کو اچانک افغانستان پہنچے جہاں انہوں نے افغان قیادت کے ساتھ امریکی افواج کے انخلا کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا۔انٹونی بلنکن کے دورہ افغانستان کا مقصد افغان قیادت کو یہ یقین دہانی کرانا تھا کہ امریکہ افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پ±رعزم ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ نے افغان صدارتی محل میں صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران کہا کہ دورہ کابل کا مقصد افغان قیادت کو یقین دہانی کرانا ہے کہ امریکہ افغان حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ شراکت بدل رہی ہے لیکن شراکت داری پائیدار خطوط پر استوار ہے۔
اس موقع پر صدر غنی نے افغانستان میں امریکی افواج کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ” افواج کے انخلا سے متعلق ہم امریکی فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور ہم اپنی ترجیحات کو ضرورتوں کے مطابق ڈھالیں گے۔”صدر غنی سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ افغان سرزمین سے مزید کوئی اور دہشت گردی کا حملہ روکنے کے سلسلے میں کام کرے گا۔یاد رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں القاعدہ کے دہشت گردوں نے مسافر طیاروں کو ہائی جیک کرنے کے بعد انہیں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا دیا تھا۔دہشت گردی کے اس ہلاکت خیز واقعے کے بعد امریکہ نے افغانستان میں چڑھائی کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا جس کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور طالبان کے درمیان امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ جاری رہی۔
تقریباً دو عشروں تک جاری رہنے والی اس جنگ کے خاتمے کا اعلان امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے ایک منصوبہ بھی پیش کیا ہے۔افغان جنگ کے خاتمے کے منصوبے پر افغان قیادت کو اعتماد میں لینے کے لیے جمعرات کو اینٹنی بلنکن نے افغانستان کا دورہ کیا۔ان کے بقول طالبان نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان میں القاعدہ کو پنپنے نہیں دیں گے اور ہم طالبان کو اس عہد پر قائم رکھنے پر مجبور رکھیں گے۔صدر بائیڈن کا قوم سے خطاب کے دوران افغانستان سے فوج کے انخلا کا اعلان۔یاد رہے کہ گزشتہ برس فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا۔معاہدے کی رو سے تمام غیر ملکی افواج کو یکم مئی 2021 تک افغانستان سے انخلا کرنا ہے جس کے بدلے طالبان نے غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے اور افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ نہ بننے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
افغانستان سے فوجی انخلا کے صدر جو بائیڈن کے اعلان پر طالبان نے تنقید کی ہے۔طالبان نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کا تاخیر سے انخلا گزشتہ برس ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔طالبان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر زور دیا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت یکم مئی تک غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا یقینی بنائیں۔طالبان کا دعوی ہے کہ امریکہ معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے جس کے بعد جنگجوو¿ں کے لیے جوابی حکمتِ عملی اختیار کرنے کا جواز پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے ان کے بقول معاہدے کی خلاف ورزی کے نتائج کے ذمہ دار طالبان نہیں بلکہ امریکہ ہو گا۔
