سہیل انجم
انسان بعض اوقات حالات کے ہاتھوںاس قدر مجبور او ربے بس ہو جاتا ہے کہ اس کی عقل خبط ہو جاتی ہے اور ا س کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آج دنیا کا ہر شہری ایک نادیدہ اور بے جان مادے کے ہاتھوں ایسا مجبور ہوا ہے کہ بس، اللہ پناہ! اور ہندوستان کا حال تو ناقابل بیان ہے۔ جب شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار حکومت اور ملک کے اسپتالوں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو تو پھر ایک عام شہری کی کیا اوقات اور کیا بساط۔ کروناوائرس نامی چیز نے انسانوں کو ناچیز بنا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی عام مرض ہوتا ہے تو ڈاکٹر ا س کا علاج ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے کرونا وائرس کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش تو کی لیکن وہ ا س کا مکمل یا شافی و کافی علاج نہیں ڈھونڈ پائے۔ ہاں انھوں نے ویکسین ضرور بنا لی۔ کرونا کی جو ویکسین تیار ہوئی ہیں وہ کرونا کو ختم تو نہیں کر پائیں گی لیکن اتنا تو کر سکتی ہیں کہ جس نے ویکسین لگوا لی اس کو اگر دوبارہ کرونا ہو بھی جائے تو وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کیونکہ ویکسین میں کرونا کے وائرس ڈالے گئے ہیں۔ وہ وائرس ویکسین کے ذریعے انسانوں کے جسم میں داخل کیے جاتے ہیں اور جب اس کے اند رکسی دوسرے شخص کے ذریعے وائرس داخل ہو جاتا ہے تو ویکسین کے توسط سے جو وائرس جسم کے اندر داخل کیے گئے تھے وہ بعد میں آنے والے وائرس سے لڑتے ہیں اور اسے ختم کر دیتے ہیں۔ یعنی انسان کے اندر اتنی قوت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے کہ ویکسین لگوانے والے شخص کا کرونا سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے تمام شہریوں کو ویکسین کب تک لگ پائے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جس رفتار سے ویکسین لگائی جا رہی ہے اگر اسی رفتار سے لگائی جاتی رہی تو ملک کی 70 فیصد آبادی کو ٹیکہ لگانے میں کم از کم آٹھ سال لگ جائیں گے۔ اور ادھر صورت حال یہ ہے کہ ملک میں ویکسین کی قلت ہو گئی ہے۔
ہندوستان نے ویکسین تو بہت بنا لی تھی کیونکہ ہندوستان دنیا میں ویکسین بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ لیکن چونکہ بہت سے ملکوں کو کروڑوں خوراک ویکسین سپلائی کی جا چکی ہے اس لیے اندرون ملک قلت پیدا ہو گئی۔ یہ قلت پیدا نہیں ہوتی اگر کرونا کی دوسری لہر نہیں آئی ہوتی۔ شاید حکومت سے اندازے کی غلطی ہو گئی اور اس نے یہ سوچ کر ملک سے کرونا ختم ہو گیا ہے دنیا کے دیگر ملکوں کو ویکسین دینا شروع کر دیا۔ حکومت نے یہ کام بطور امداد کیا لیکن اب یہی امداد خود ہندوستانیوں کے لیے بھاری پڑ گئی۔بہرحال اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ جو گیارہ بارہ ریاستیں اس وقت کرونا سے بری طرح متاثر ہیں وہاں نہ تو قبرستانوں میں جگہ مل رہی ہے اور نہ ہی شمشانوں میں۔ قبرستانوں کے لیے بھی مزید جگہوں کا انتظام کیا جا رہا ہے اور شمشانوں کے لیے بھی۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹاف میں سے اب تک تقریباً دو درجن افراد دنیا سے جا چکے ہیں۔ علیگڑھ میڈیکل کالج کے قبرستان میں میتوں کا تانتا لگا ہوا ہے۔ ایک کی تدفین مکمل نہیں ہوپاتی کہ دوسری میت آجاتی ہے۔ یہی صورت حال دہلی کے قبرستانوں کی بھی ہے۔ خواہ وہ دہلی گیٹ پر واقع قبرستان کا معاملہ ہو یا پھر دوسری مسلم آبادیوں کی قبرستانوں کا۔ جو لوگ اسپتالوں میں کرونا کے شکار ہو کر دم توڑ رہے ہیں ان کو کرونا اموات کے لیے مخصوص قبرستانوں میں دفن کیا جا رہا ہے لیکن جو کرونا مریض اپنے گھروں پر علاج کروا رہے ہیں اور اگر وہ جان سے چلے جاتے ہیں تو عام اور قریبی قبرستانوں میں ان کی تدفین ہوتی ہے۔ دہلی کے بٹلہ ہاوس، شاہین باغ، دہلی گیٹ، ویلکم اور دوسرے مسلم اکثریتی علاقوں میں روزانہ تازہ بہ تازہ قبریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ملک کے حالات اب تو اتنے ابتر ہو گئے ہیں کہ دوسرے درجنوں ملکوں نے ہندوستان کی جانب امداد کی ہاتھ بڑھایا ہے۔
ان ملکوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یوروپی یونین اور چین اور پاکستان بھی ہیں۔ امریکہ نے ہندوستان میں کرونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وائٹ ہاو¿س کی ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ ہندوستان کی حکومت اور طبی عملے کو اضافی مدد فراہم کرے گا۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں امریکہ ہندوستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ ہندوستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ امریکہ ہندوستان کو اضافی امداد فراہم کر سکے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہندوستانی عوام سے اظہار یکجہتی کے طور پر پاکستان نے وینٹی لیٹر، آکسیجن سپلائی کٹس، ڈیجیٹل ایکس رے مشین، پی پی ای اور دیگر متعلقہ سامان پر مشتمل امداد کی پیش کش کی ہے۔ جو واگہہ بارڈر کے راستے ہندوستان کو بھجوائی جا سکتی ہیں۔ادھر برطانیہ نے 295 آکسیجن کنسنٹریٹرس، 120 نان انونسیو وینٹی لیٹر اور 20 مینوول وینٹی لیٹرس اور ادوات و دیگر ساز و سامان کے ساتھ پہلی کھیپ اتوار کو روانہ کی ہے۔ ا س کے بعد مزید کھیپ کی بھی سپلائی کی جائے گی۔ آکسیجن کنسنٹریٹر ہوا سے آکسیجن کھینچ کر اسپتالوں میں سپلائی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ برطانیہ اس مشکل گھڑی میںہندوستان کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔ سعودی عرب نے 80 میٹرک ٹن آکسیجن ہندوستان کے لیے روانہ کر دی ہے۔ اس نے ٹینک، آکسیجن سلینڈر اور دیگر آلات بھی سپلائی کیے ہیں۔ یہ اشیا اڈانی گروپ اور ٹاٹا گروپ کے توسط سے بھیجی گئی ہیں۔ ریاض میں ہندوستانی سفارت خانے نے اس پر سعودی حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سنگاپور سے طبی آلات اتوار کے روز ہی پہنچ گئے ہیں۔ ان میں آکسیجن کنسنٹریٹرس اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی آکسیجن سلینڈر سپلائی کیے جا رہے ہیں۔
وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور انڈین ایئر فورس اس سلسلے میں تعاون کر رہے ہیں۔ اسی طرح جرمنی، ڈنمارک، فرانس اور یوروپی یونین کی جانب سے بھی امداد کی سپلائی شروع کی جا رہی ہے۔یہ تو ہوئی دنیا بھر سے ہندوستان کو بھیجی جانے والی امداد۔ لیکن ہندوستان اور خاص طور پر دارالحکومت دہلی میں کیا صورت حال ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی میں اسپتالوں کی جانب سے نئے مریضوں کو واپس کیا جا رہا ہے۔ کئی اسپتالوں نے مزید مریض داخل نہ کرنے کا نوٹس چسپاں کر دیا ہے جبکہ کئی اسپتالوں نے کہا ہے کہ اگر مریضوں کے پاس سلینڈر اور آکسیجن ہو جبھی وہ اسپتال آئیں۔ اس صورت حال نے کرونا مریضوں کی بے بسی میں اضافہ کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت دہلی میں کم و بیش 50 ہزار مریض اپنے گھروں پر ہی ڈاکٹروں کی نگرانی میں زیر علاج ہیں۔ لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ آکسیجن اور ادویات کا ہے۔ بازاروں میں سلینڈروں کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہو گئی ہے۔ کئی متاثرین نے بتایا کہ لوگ سلینڈروں کی منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے چھ ہزار کا سلینڈر لوگ چالیس اور پچاس ہزار میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دہلی کی کوئی بھی کالونی ایسی نہیں ہے جہاں سے یومیہ دو چار جنازے نہ نکلتے ہوں۔
دہلی سے متصل غازی آبا دکے روزنامہ قومی آواز کے سابق کارکن منور شکوری نے بتایا کہ ان کے چھوٹے بھائی 56 سالہ مظفر شکوری، جو کہ پیشے سے ایک صحافی تھے، کسی اسپتال میں داخلہ نہ ملنے اور آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے محض دو روز کے اندر دم توڑ گئے۔ اب ان کی بہن کو بھی آکسیجن کی سخت ضرورت ہے۔ کہیں سے منہ مانگی قیمت دے کر انھوں نے ایک سلینڈر خریدا مگر اب اس کی آکسیجن ختم ہو رہی ہے اور ان کے سامنے اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہاں سے آکسیجن لائیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جن کے پاس سلینڈر ہے وہ بلیک میں فروخت کر رہے ہیں۔ ان کے ایک شناسا کو،جن کا نام پریتم ہے اورشاہدرہ دہلی کے رہائشی ہیں، کسی نے بتایا کہ فلاں جگہ سلینڈر ہے۔ انھوں نے سلینڈر لیا اور غازی آباد سے دہلی میں جا کر کہیں سے آکسیجن ڈلوائی۔ لیکن جب گھر لا کر لگایا تو معلوم ہوا کہ اس میں بہت کم آکسیجن تھی جو پندرہ منٹ کے اندر ختم ہو گئی۔ عام طور پر ایک بڑا سلینڈر چھ گھنٹے تک چل جاتا ہے۔ جامعہ نگر علاقے کے ایک شخص نے بتایا کہ وہ کئی دنوں سے کرونا میں مبتلا ہیں۔ ان کے پاس ایک سلینڈر پہلے سے تھا جس کو کسی طرح بھروا کر انھوں نے اپنا کام چلایا۔ اب ان کی حالت بہتر ہے لیکن ان کی اہلیہ اور ان کے چار بچوں کو بھی کرونا ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق ان کی اہلیہ کو آکسیجن لگی ہوئی ہے جو جلد ہی ختم ہو جائے گی۔ اب انھیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ وہ کہاں سے اسے بھروائیں گے۔
ذرائع کے مطابق اب تو بہت سے لوگوں نے آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنیوں سے ساز باز کر لی ہے اور وہ وہاں سے ایک سلینڈر میں چار پانچ ہزار میں آکسیجن ڈلواتے ہیں اور ضرورت مندوں کو بلیک میں تیس چالیس ہزار میں فروخت کر رہے ہیں۔ جنوبی دہلی کے سنگم وہار علاقے کے ضیاءالدین انصاری نے بتایا کہ ان کے دوست 59 سالہ محمد مشتاق کا علاج گھر پر ہی ہو رہا ہے۔ لیکن ان کے سامنے بھی آکسیجن کا مسئلہ ہے۔ ان لوگوں نے کہیں سے ایک سلینڈر 52 ہزار روپے میں خریدا تھا۔ جس دلال کے توسط سے خریدا گیا ا س نے بتایا تھا کہ اس میں فل آکسیجن ہے۔ لیکن جب گھر لاکر اسے لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بالکل خالی تھا۔ ان کے مطابق ایک چھوٹے سلینڈر سے فی الحال کام چلایا جا رہا ہے اور ایک خالی سلینڈر کو بھروانے کے لیے بھاگ دوڑ جاری ہے۔ دریں اثنا ایسی خبریں بھی ہیں کہ بہت سی کمپنیوں نے پرائیویٹ لوگوں کو آکسیجن دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے آرڈر دیا ہے کہ وہ صرف اسپتالوں کو ہی گیس سپلائی کریں۔ یہی حال ادویات کا بھی ہے۔ ادویات اور انجکشن بھی بلیک میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔
