اسلام آباد:(اے یوایس) عمران خان کے مشیر مولانا طاہر اشرفی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے نصاب میں کوئی نفرت آمیز مواد موجود نہیں ہے۔ ان کے مطابق حکومت غیر مسلم اقلیتوں کے لیے نصاب میں ایسا مضمون شامل کرنے والی ہے جو ان کے مذاہب بارے ہو گا۔وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے مشرق وسطی اور بین المذاہب ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں نہ پہلے کوئی نفرت انگیز مواد موجود تھا اورنہ اب ہے۔ پہلے بھی اقلیتوں کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ اسلامیات پڑھیں یا نہ پڑھیں اور ان کے پاس اب بھی اختیار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب ہندو، عیسائی اور دوسری اقلیتیں اپنے مذاہب کے حوالے سے مضامین بھی پڑھ سکیں گی۔مولانا طاہر اشرفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”کچھ عناصر کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ حمد اور نعت کو نصابی کتب میں شامل نہ کیا جائے، لیکن قومی اقلیتی کمیشن کے ارکان نے اس طرح کا کوئی اعتراض نہیں لگایا، پاکستان میں اسلام اور آئین کے مطابق اقلیتوں کو تمام حقوق دیے جا رہے ہیں۔”
پاکستان میں کئی حلقے ماضی میں نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یکساں نصاب پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے بتایا، ” اردو اور انگلش کی لازمی کتابوں میں 33% مواد ایسا ہے جو صرف مسلمانوں کے حوالے سے ہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے جو بھی چیزیں ہیں وہ اسلامیات میں رکھی جائیں اور انہیں لازمی مضامین سے نکالا جائے۔”ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کی طرح سندھ اور بلوچستان بھی ایسے مواد کو ختم کر دیں گے لیکن مسئلہ کے پی کے میں ہوگا جہاں ماضی میں بھی سب سے زیادہ نفرت انگیز مواد نصاب میں موجود تھا۔” پروفیسر کے ایس ناگپال کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہندو دھرم کے حوالے سے کتابوں کی آو¿ٹ لائن لکھ دی ہے، دوسرے مذاہب کے لوگوں کی بھی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ ڈاکٹر وانکوانی کا کہنا تھا کہ یہ کتابیں عیسائی، سکھ، ہندو اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے ہوں گی۔پاکستان ہندو فورم کے سربراہ ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے مخالف ہیں کہ نصاب کو مذہبی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے بلکہ نصاب کو سیکولر ہونا چاہیے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سینٹر فارسوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے بتایا، ” سپریم کورٹ نے ہماری بات سے اتفاق کیا کہ اردو اور انگریزی کے مضامین میں مذہبی مواد نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت نے حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔”منارٹیز الائنس پاکستان کے وائس چیئرمین شمعون ایلفریڈ گل بھی سیکولرنصاب کے حامی ہیں۔تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے مسیحی رہنما اقبال دانیال کھوکھر کا کہنا ہے غیرمسلم پاکستانیوں کے لئے ان کے اپنے مذہب کی کتابوں سے پڑھانا ایک بہت مثبت قدم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “پاکستان میں بہت سارے مسائل اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ مسلمان پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانیوں میں کئی معاملات میں تفہیم نہیں ہے۔”تاہم بعض حلقوں کا دعوی ہے کہ اس سے سماجی انتشار پڑے گا۔ ڈاکٹر ناگپال کا کہنا ابھی تو بہت سارے غیر مسلم پاکستانیوں کی شناخت چھپی رہتی ہے لیکن جب وہ اس مضمون کا انتخاب کریں گے تو فورا ہی ان کی شناخت ظاہر ہوجائے گی جس سے ان کو خطرات لاحق ہوں گے۔
ڈاکٹر جے پال کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس مضمون کے بنانے کی نوید سنا دی لیکن اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا۔ ” اگر ایک اسکول میں چار ہندو، دو عیسائی اور ایک سکھ طالب علم ہے۔ تو کیا ان کے لئے علیحدہ علیحدہ استادوں کا تقرر کیا جائے گا۔ کچھ اقلیتی رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ وہ اس حکومتی کوشش کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ دلت سجاگ تحریک کی چیئرپرسن رادھا بھیل نے بتایا کہ ان کی تحریک اس حکومتی کوشش کی بھرپور مزاحمت کرے گی۔ “ہندو دھرم کے حوالے سے کسی مضمون کو نصاب میں شامل کرنا اور اس کو پڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ منوسمرتی کے قوانین پڑھائے جائیں گے جو نچلی ذات کے ہندوو¿ں کو کسی طور پر قبول نہیں ہے کیونکہ اس سے ہمارے بچوں میں احساس محرومی پیدا ہوگا۔ ہم ایسے کسی بھی مضمون کی نہ صرف مخالفت کریں گے بلکہ اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔”
اقلیتوں کے تعلیمی نصاب میں نفرت انگیز مواد نہیں ہے:وزیر اعظم عمران خان کے مشیر مولانا اشرفی کا دعویٰ
