Coronavirus crisis : Death cheap and life expensive

سہیل انجم

اس وقت پوری دنیا شدید عذاب میں مبتلا ہے۔ موت سستی اور زندگی مہنگی ہو گئی ہے۔ موت کا ہرکارہ گلی گلی اور کوچہ کوچہ پھر رہا ہے۔ جو سامنے آجا رہا ہے اس کو اپنا شکار بنا لے رہا ہے۔ زندگی خود کو چھپاتی پھر رہی ہے۔ لیکن اسے کوئی ایسی جائے پناہ نہیں مل رہی جہاں جا کر وہ اپنے آپ کو محفوظ بنا سکے۔ کوئی بھی کونہ اور کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں کرونا کا بھوت اپنی موجودگی درج نہ کرا رہا ہو۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ موت کے فرشتے کے آگے زندگی کے فرشتے کی ایک نہیں چل رہی ہے۔ حالانکہ وہ انسانی جانوں کو بچانا چاہتا ہے لیکن کیا کرے کہ اجل کے ہاتھ اتنے لمبے ہو گئے ہیں کہ ان سے کسی کو بچا پانا بہت مشکل نظر آرہا ہے۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ شمشانوں میں جگہ ہے نہ قبرستانوں میں۔ اسپتالوں میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اسپتال کے ذمہ داران مریضوں کو واپس کر رہے ہیں۔ آکسیجن کی قلت زندگی کی سانسیں کم کر رہی ہے۔ جانے کتنے لوگ آکسیجن کی کمی کے شکار ہو کر دوسری دنیا میں جا چکے ہیں۔ جو آکسیجن کی قلت کے شکار ہونے سے بچ جا رہے انھیں اسپتالوں میں لگنے والی آگ اپنی خوراک بنا رہی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں جانے کتنے اسپتالوں آگ کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ لیکن اس پرآشوب دور میں یا قیامت صغریٰ میں دو قسم کے واقعات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک طرف لالچی لوگوں کا گروہ ہے جو کفن فروشی کرکے دولت کے انبار لگا لینا چاہتا ہے اور دوسری طرف ایسے ایثار پیشہ افراد بھی ہیں جو اپنا سب کچھ لوگوں کی جان بچانے میں خرچ کر دے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں ایک گروپ ایسا بھی ہے جو جان سے جا چکے لوگوں کی آخری رسومات ادا کر رہا ہے۔

شمشانوں میں ان کا کریا کرم کر رہا ہے یا پھر قبرستانوں میں ان کی تدفین کر رہا ہے۔ لیکن پہلے ان لوگوں کا ذکر ہو جائے جو اس وقت ننگ انسانیت بنے ہوئے ہیں۔ جو انسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اپنا بینک بیلنس بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ کس طرح آکسیجن کی بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔ ایسی خبریں سنی اور پڑھی جا رہی ہیں کہ چھ چھ ہزار کے سلنڈر لوگوں نے تیس چالیس اور پچاس ہزار میں فروخت کیے۔ اب ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ان کے کسی شناسا نے چھ ہزار کا سلنڈر 72 ہزار میں خریدا ہے۔ ذرا سوچیے کہ کیا ایسے لوگوں کو انسان کہا جا سکتا ہے جو انسانیت کی کھال اتارنے کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہوں۔ آکسیجن کے علاوہ دوائیاں بھی بلیک میں فروخت کی جا رہی ہیں۔ ہمارے ایک دوست مطابق ان کے ایک دوست فرید آباد کے کسی اسپتال میں داخل ہیں۔ ان کو بچانے کے لیے ایک انجکشن کی ضرورت ہے۔ وہ انجکشن ہندوستان میں نہیں ملتا باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ اس کی قیمت بیس یا تیس ہزار روپے ہے۔ لیکن ان کو بتایا گیا کہ اگر یہ انجکشن ہندوستان آیا بھی تو یہاں اس کی قیمت دو ڈھائی لاکھ روپے ہو جائے گی۔ اسی طرح کرونا مریضوں کو لگایا جانے والا ایک انجکشن پانچ ہزار میں آتا ہے اسے اب لوگ چالیس ہزار میں فروخت کر رہے ہیں۔ بخار میں استعمال ہونے والی پیرا سیٹا مال جیسی سستی دوا بھی اب 100 روپے میں مل رہی ہے۔ ملٹی وٹامن کی گولیاں بازار سے غائب ہونے لگی ہیں۔ بعض ڈاکٹروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر آکسیجن کی قلت پر قابو پا لیا گیا تو دوائیں ملنی مشکل ہو جائیں گی۔ بہت سی لائف سیونگ دوائیں ابھی سے بازار سے غائب ہو گئی ہیں۔ لکھنؤ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ادوائیں ہی نہیں بلکہ خورد و نوش کی اشیا اور سبزیاں و پھل بھی مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔

چند ماہ قبل تک جو سنترہ 100 روپے میں تین کلو مل رہا تھا وہ اب دو سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ کینو سو روپے میں چار عدد مل رہے ہیں۔ گزشتہ سال جو ماسک دو روپے میں مل رہا تھا وہ اس وقت دس روپے میں اور دس والا بیس روپے میں مل رہا ہے۔ برانڈیڈ کمپنی کا 800 روپے میں ملنے والا پلس آکٹومیٹر دو ہزار روپے تک اور دو سو روپے والی بھاپ لینے والی مشین آٹھ سو روپے میں مل رہی ہے۔ لیکن ایک طرف جہاں ایسے لوگ ہیں جو انسانیت کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہیں وہیں دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن پر انسانیت کو ناز ہے۔ جو بلا لحاظ مذہب و ملت اپنا کام کر رہے ہیں۔ اس دوران انسانیت نوازی کی ایسی متعدد مثالیں بھی سامنے آئی ہیں جن کو دیکھ کر یہ احساس پختہ ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی شخص ہندوستان کی مٹی میں رچی بسی فرقہ وارانہ محبت اور سماجی یگانگت کی خوشبو کو ختم نہیں کر سکتا۔ ایسے متعدد واقعات پیش آئے ہیں اور اب بھی آرہے ہیں کہ خاص طور پر ہندو خاندانوں میں کرونا سے مرنے والوں کی آخری رسومات انجام دینے سے خود ان کے اہل خانہ بچ رہے ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ وہ اگر لاش کو چھوئیں گے یا ان کا کریا کرم کرنے کی کوشش کریں گے تو انھیں بھی کرونا لگ جائے گا اور ان کی بھی شمع حیات گل ہو جائے گی۔ لیکن ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ ہے۔ اس نے جس کی جتنی زندگی لکھ دی ہے وہ اتنے ہی دن جیئے گا، اس سے ایک لمحہ زیادہ نہ ایک لمحہ کم۔ دنیا بھر کے ڈاکٹر بھی آجائیں تو جس کا وقت آگیا ہے اسے بچا نہیں سکتے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موت کے لیے کوئی بہانہ چاہیے۔ اگر کسی کی موت کرونا کے بہانے لکھی ہوئی ہے تو کوئی اسے ٹال نہیں سکتا۔ اسی عقیدے کے تحت مختلف شہروں میں مسلمانوں کی جانب سے ان میتوں کی آخری رسومات ادا کی جا رہی ہیں جن کو کوئی پوچھ نہیں رہا ہے اور جن کو خود ان کے گھر والوں نے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔

ایسے واقعات مسلم برادری میں نہیں ہو رہے بلکہ غیر مسلموں میں ہو رہے ہیں۔ اور یہ مسلمان ہی ہیں جو اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ان لوگوں کی آخری رسومات کو انجام دے رہے ہیں۔ایسے ہی لوگوں میں مہاراشٹر کے معین مستان او ر25 رضاکاروں پر مشتمل ان کی ٹیم ہے جو یومیہ چالیس پچاس میتوں کی آخری رسومات انجام دے رہے ہیں۔ مستان کا کہنا ہے کہ ہم نے اللہ کا نام لے کر یہ کام کو شروع کیا ہے۔ آخری رسومات کی ادائیگی سے قبل ہم اللہ سے خصوصی دعائیں کرتے ہیں۔ اگر اس خدمت کے عوض ہماری جان بھی چلی جائے تو ہمیں کوئی افسوس نہیں ہوگا کیونکہ انسانیت کی خدمت کرنے میں اگر جان جاتی ہے تو یہ بڑے اعزاز کی بات ہے۔ مستان کی ٹیم عوامی تعاون سے یہ کام کر رہی ہے۔ ان لوگوں نے چھ ایمبولینس کو اس خدمت پر لگا رکھا ہے۔ وہ اسپتالوں میں جاتے ہیں یا جن کے گھر میت ہے وہاں جاتے ہیں اور ان کو شمشان یا قبرستان لا کر چتا جلاتے یا دفن کرتے ہیں۔ تدفین کا زیادہ مسئلہ نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں میں اپنی میتوں کو یوں لاوارث چھوڑ دینے کا رجحان نہیں ہے۔ البتہ ہندووں، سکھوں اور عیسائیوں میں یہ دیکھا جا رہا ہے۔ رضاکاروں کے اس گروپ میں ڈاکٹر، انجینئر اور بزنس مین بھی ہیں جو اپنی جیب خاص سے یہ کام کر رہے ہیں۔ مستان کی ٹیم کے سامنے ایسے بھی مواقع آئے کہ جب شمشان گھاٹ پر ہی افطار کا وقت ہو گیا اور انھوں نے وہیں روزہ کھولا۔ بھوپال کے دانش صدیقی اور صدام قریشی بھی انھی خوش نصیب افراد میں شامل ہیں جو لاوارث ہندو میتوں کی آخری رسومات انجام دے رہے ہیں۔ وہ دونوں میونسپل کارپوریشن کے فائر فائٹنگ ونگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا کہ وہ لوگ روزہ رکھ کر یہ کام کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق بہت سے ہندو گھروں سے فون آتے ہیں اور وہ کہتے ہیںکہ ہمارے یہاں ایک لاش پڑی ہے اس کا کریا کرم کر دیجیے۔ بعض خاندان ویڈیو کالنگ کرکے کریا کرم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا بھی چاہتے ہیں۔ انھوں نے اب تک ساٹھ سے زائد ہندو لاشوں کا کریا کرم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانیت مذہب سے اوپر ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انھیں خود مریضوں کو اسپتال لے جا کر ایڈمٹ کرنا پڑتا ہے اور اگر ان کی موت ہو جائے تو ان کا کریا کرم بھی انھی کے ذمے ہوتا ہے۔بہا رکے گیا ضلع میں مسلم نوجوانوں کا ایک گروپ بھی یہی خدمت انجام دے رہا ہے۔ امام گنج کے ایک نوجوان محمد شارق بتاتے ہیں کہ 58 سالہ پربھاوتی دیوی بیمار ہو گئیں۔ انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ان کا ٹیسٹ کیا گیا جو کہ نگیٹیو آیا۔ لیکن اسی دوران ان کی موت ہو گئی۔ لیکن ان کے اہل خانہ کو شبہ تھا کہ وہ کرونا سے مری ہیں لہٰذا انھوں نے ان کی لاش چھونے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹروں نے ان کی لاش ایک گاڑی میں رکھ دی لیکن نہ تو ان کے شوہر نے ہاتھ لگایا نہ ہی ان کے دو بیٹوں نے۔ لاش دوپہر بارہ بجے سے رات کے آٹھ بجے تک وہیں پڑی رہی۔ انھوں نے بتایا کہ جب انھیں اس کی خبر ملی تو وہ لوگ اسپتال گئے اور خاتون کے اہل خانہ کو کریا کرم کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ تیار نہیں ہوئے۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے بانس لا کر ارتھی بنائی اور اس پر لاش رکھ کر شمشان بھومی لے گئے۔ اس پر ان کے گھر والوں کو کچھ غیرت آئی اور انھوں نے اسے کندھا دیا۔

مذکورہ خاتون کے ایک بیٹے نے میڈیا کو بتایا کہ محمد رفیق، محمد شارق، محمد کلام، محمد باقی، محمد لڈن اور دوسرے نوجوانوں نے ان کی ماں کا کریا کرم کیا۔ انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کی زبردست مثال پیش کی ہے ہم لوگ ان کے شکر گزار ہیں۔ اسی طرح ناگپور کے ایک بزنس مین پیارے خان نے 85 لاکھ روپے خرچ کرکے 400 میٹرک ٹن آکسیجن اسپتالوں کو سپلائی کی۔ ان کی اس کوشش کے نتیجے میں کئی لوگوں کی جان بچ گئی۔ جب انتظامیہ نے انھیں اس کی قیمت ادا کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا کہ نہیں وہ اس کی قیمت نہیں لیں گے۔ انھوں نے زکوة کے پیسے سے یہ خدمت انجام دی ہے۔ پیارے خان نے ناگپور ریلوے اسٹیشن کے سامنے سنترے فروخت کرکے اپنے بزنس کا آغازکیا تھا۔ آج وہ 400 کروڑ روپے کی کمپنی کے مالک ہیں۔ یہ تو چند مثالیں تھیں جو پیش کر دی گئیں ورنہ میڈیا او ربالخصوص سوشل میڈیا میں مسلمانوں کی ان خدمات سے متعلق خبریں بھری پڑی ہیں۔ اس وقت جبکہ پورے ملک میں رقص مرگ جاری ہے اور اسپتالوں کے علاوہ شمشانوں اور قبرستانوں میں لاشوں کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں مسلم نوجوانوں نے انسانی خدمات کی جو مثال پیش کی ہے اس نے پوری مسلم برادری کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ انھوں نے یہ ثابت کر دیا کہ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com