Man in Ghziabad , UP lost his younger brother and sister due to lack of oxygen

نئی دہلی/غازی آباد: دہلی و مرکزی حکومت کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود آکسیجن کی شدید قلت اور تشویشناک حد تک حالات بگڑتا دیکھ کر انسانی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر آکسیجن اور آکسیجن بھرے سلنڈروں کا جس طرح بددیانتی سے کاروبار کیا گیا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ہی کنبہ کے دو بھائی بہن چند روزکے اندر ہی لقمہ اجل بن گئے۔ یہ سانحہ غازی آباد کے سنجے نگر کے رہائشی منور شکوری کے ساتھ پیش آیا جنہوں نے چند روز کے فرق سے چھوٹے بھائی اور پھر بہن کو بے بسی کے عالم میں اپنی نظروں کے سامنے دم توڑتے دیکھا۔

منور شکوری جو ابھی اپنے برادر خورد مظفر شکوری کی ،جو پیشہ سے صحافی تھے اور مختلف اخبارات میں خدمات انجام دے چکے تھے ، موت کے صدمہ سے سنبھلے بھی نہیں تھے کہ بہن کی جان بچانے کے لیے آکسیجن سلنڈروں اور خالی سلنڈروں میں گیس بھروانے کی کوشش میں پانی کی طرح پیسہ بہاتے اور بھوک پیاس سے بے پروا روزے کی حالت میں غازی آباد سے نوئیڈا ،دہلی،گڑ گاو¿ں اور پلکھوا کے چکر لگاتے رہے ۔انہیں گیس سلنڈرز بھی ملے اور خالی ہونے پر سلنڈروں میں آکسیجن بھی بھردی گئی لیکن کئی گنا پیس خرچ کرنے کے باوجود انسانی جانوں کو داؤ پر لگا کر آکسیجن کا کاروبار کرنے والوں کی درندگی اور بے حسی کا عالم یہ تھا کہ آکسیجن سے بھرا بڑا سلنڈر جو کم ا زکم 8تا 10گھنٹے چلنا چاہیے مریض کو لگائے نصف گھنٹہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ خالی ہو جاتا تھا۔اور منور چین سے بیٹھنے بھی نہیں پاتے تھے کہ دوسرے سلنڈر کے بندوبست میں لگ جاتے تھے۔

منور شکوری نے اپنے بھائی اور بہن کے انتقال کرجانے کے حوالے سے بتایا کہ ان کے بھائی مظفر شکوری دہلی میں رائش پذیر تھے۔ ان کی اچانک طبیعت بگڑی اور سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔لیکن بر وقت آکسیجن نہ ملنے کے باعث انہوں نے دم توڑ دیا۔ادھر ان کی بہن عارض بھی بستر علالت پر تھیں جس کے پیش نظر منور نے بھائی کی موت کی بہن کو اطلا ع نہیں دی اور اپنے گھر میں لوگوں کی تعزیرت کے لیے آمد ، اکلوتی13سالہ بھتیجی کے رونے اور تسلسل سے تعزیتی فون آنے کی وجہ سے گھر کا جو ماحول بن رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے منور نے بہن کو بھائی کی موت سے بے خبر رکھنے کے لیے آناً فاناً نوئیڈا میں رہائش پذیر عارض کی بیٹی کے گھر منتقل کر دیا۔لیکن وہاں پہنچنے کے بعد عارض کی طبیعت بگڑ گئی اور سانس لینے میں دقت محسوس ہونے لگی۔منور نے انہیں اسپتال میں داخل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ہلی غازی آباد کے اسپتالوں کے چکر کاٹنا شروع کر دیے لیکن کہیں داخلہ نہ مل سکا اور مجبوراً ً منور کو گھر پر ہی آکسیجن کا انتظام کرنا پڑا۔طبیعت مزید بگڑی تو بہن کو کسی اسپتال میں بھرتی کرانے کی پھر کوشش کی اور سے سلنڈر لگا کر اپنے ایک ڈاکٹر دوست معین الدین کے ہمراہ ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال کے چکر کاٹتے رہے لیکن کہیں داد رسی نہ ہوئی ۔ناچار واپس سنجے نگر سئینیکت اسپتال لائے جہاں اسپتال میں بیڈ نہ ہونے کے کہہ کر راما ہاسپٹل پلکھوا کے لیے ریفر کر دیا گیا۔ یہاں تین گھنٹے تک اسپتال کے عملہ کی منت سماجت کی جاتی رہی لیکن عارض کو بھرتی نہ کیا گیا۔

آکسیجن سلنڈر بھی ختم ہونے والا تھا ۔خاندان کے کچھ لوگوں کو پلکھوا سے ہی سلنڈر کا بندوبست کرنے کہا ۔وہ سلنڈر بھروانے دہلی گئے ۔آکسیجن کا انتظام ہونے کی خبر پر پلکھوا سے وہ عارض کو لے کر غازی آباد روانہ ہوئے لیکن غازی آباد آتے آتے سلنڈر میں آکسیجن ختم ہو نے لگی۔سحری کے وقت عارض کا بیٹا امام خان اور داماد مشرف فیضی سلنڈر بھروا کر غازی آباد پہنچ گئے لیکن سلنڈر لگانے کے پانچ منٹ بعد ہی سلنڈر ختم ہو گیا اور عارض وہیل چئیر پر بیٹھے بیٹھے ہی گھر کے عین دروازے پر آخری ہچکی لے کر عالم فانی سے کوچ کر گئی۔آکسیجن یا آکسیجن سے بھرے سلنڈروں کی کتنی قلت ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو مشہور و معروف کرکٹ کھلاڑی سریش رینا کو اپنے ٹوئیٹر کے توسط سے میرٹھ میں رہائش پذیر اپنی آنٹی کے لیے آکسیجن کی اپیل کا ٹوئیٹ نہ کرنا پڑتا۔