Coronavirus death ruled over AMU

سہیل انجم

ہندوستان میں کرونا وبا کی دوسری لہر نے جو ہلاکت خیزی مچائی ہے وہ باعث تشویش ہے۔ پہلی لہر کم خطرناک تھی۔ دوسری کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ہے اور تیسری لہر کی بھی وارننگ جاری کر دی گئی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کی سنگینی اور ہلاکت خیزی ان دونوں سے کہیں زیادہ ہوگی اور اس سے بچے بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ یوں تو پہلی لہر نے بھی علم و فن کی دنیا کی متعدد شخصیات کو اپنا نشانہ بنایا تھا لیکن دوسری لہر نے ایسا رقص مرگ کیا ہے کہ علم و فن کی دنیا سونی ہوتی جا رہی ہے۔ اس بار تعلیم یافتہ افراد بھی بڑی تعداد میں کرونا کے شکار بن رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے محفوظ نہیں رہ گئے ہیں اور دینی اداروں کے ساتھ ساتھ عصری تعلیمی ادارے بھی اس کی زد میں آگئے ہیں۔ دو تین روز کے وقفے کے بعد کسی نہ کسی بڑی علمی شخصیت کے اٹھ جانے کی خبر آجاتی ہے۔ اس حوالے سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا کیمپس کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موت کے ہرکارے نے یونیورسٹی کیمپس کو اپنا مرکز بنا لیا ہے۔ بلکہ اس نے کیمپس کو ایک طرح سے مقتل میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کے موجودہ اور سابق اسٹاف میں سے اب تک 43 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ابھی اور کتنوں کو اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کرنا ہے بتانا مشکل ہے۔ اسی طرح ندوة العلما لکھنو¿ اور دار العلوم دیوبند جیسے دینی تعلیمی اداروں میں بھی کرونا کی ہلاکت خیزی پہنچ گئی ہے اور ان اداروں سے بھی بار بار جنازے اٹھائے جا رہے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ تشویشناک صورت حال علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی ہے۔ مسلسل اور متواتر ہونے والی اموات سے یونیورسٹی کیمپس میں موت کا سناٹا چھا گیا ہے۔ یہ سناٹا اس وقت ٹوٹتا ہے جب کسی اور کی جان جا چکی ہوتی ہے۔ اس صورت حال سے یونیورسٹی کے ذمہ داران پریشان ہیں اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ اس صورت حال پر کیسے قابو پایا جائے۔ اس کے علاوہ وہ یہ جاننے کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یونیورسٹی میں اتنی موتیں ہو رہی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کرونا کی کوئی نئی مگر خطرناک قسم نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے ”انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ“ کے سربراہ بلرام بھارگون کے نام ایک مکتوب ارسال کرکے صورت حال بتائی ہے اور یونیورسٹی کیمپس اور اس کی قریبی کالونیوں میں کرونا کے حوالے سے تفصیلات پیش کی ہیں۔ ان کے مطابق 16 فیکلٹی ممبرس اور بڑی تعداد میں سبکدوش اساتذہ اور ملازمین اب تک کرونا کی زد میں آکر اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ انھوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ سول لائنز کے علاقے اور دوسری متصل کالونیوں میں کرونا کی کوئی نئی قسم پھیلی ہوئی ہے۔ جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج نے آئی سی ایم آر کو نمونے ارسال کیے ہیں جس کی جانچ کی ضرورت ہے تاکہ اس کی روشنی میں ضروری اقدامات اٹھائے جائیں۔ اسی درمیان جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے پرنسپل شاہد علی صدیقی نے بتایا ہے کہ گزشتہ پندرہ دنوں میں اسپتال کے 25 ڈاکٹروں کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ اس وقت تین ڈاکٹرس زیر علاج ہیں اور باقی ماندہ صحت یاب ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ دو روز قبل میڈیکل کالج میں میڈیسن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ شاداب خان کی کرونا سے موت ہو چکی ہے۔ آٹھ مئی کو 59 سالہ پروفیسر شکیل صمدانی کی کرونا سے موت ہوئی۔ وہ دس دنوں سے میڈیکل کالج میں داخل تھے اور ان کی صحت بہتر ہو رہی تھی کہ اچانک خراب ہو گئی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

جمعہ کے روز 55 سالہ پروفیسر رفیق الزماں خاں بھی جو کہ کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے، چل بسے۔ اسی درمیان 70 سالہ پروفیسر محمد شبیر بھی دنیا سے چلے گئے۔ وہ شعبہ¿ قانون میں امبیڈکر چیئر کے سابق بانی صدر تھے۔ اس سے قبل معروف سنسکرت اسکالر پروفیسر خالد بن یوسف بھی مختصر علالت کے بعد جاں بحق ہو گئے۔ یونیورسٹی کی فہرست کے مطابق اب تک جن 43 افراد کو کرونا نگل چکا ہے ان کے نام یوں ہیں: ڈاکٹر ارشد احمد شعبہ¿ فزکس، پروفیسر شاداب خان میڈیسن، پروفیسر رفیق الزماں کمپیوٹر سائنس، ڈاکٹر عرفان احمد زولوجی، شکیل احمد صمدانی قانون، پروفیسر شبیر قانون، احمد فاروق طارق منصور کے بڑے بھائی، ڈاکٹر جبرئیل ہسٹری، ڈاکٹر عزیز فیصل وومین اسٹڈیز، ڈاکٹر سراج انور ہسٹری، ایم عباس مہدی ہسٹری، محترمہ حجازیہ سٹی اسکول، پروفیسر سعید الظفر سائکالوجی، پروفیسر ساجد علی خان، پروفیسر خالد بن یوسف سنسکرت، پروفیسر سعید صدیقی بوٹنی، پروفیسر مبشر میڈیسن، پروفیسر سفال افضل میڈیسن، پروفیسر فرمان حسین تھیالوجی، ڈاکٹر محمد یوسف انصاری انگریزی، پروفیسر محمد یونس صدیقی معالجات، پروفیسر محمد عارف میڈیسن، پروفیسر غفران احمد علم الادویہ، محمد علی خان پوسٹ ہارویسٹ انجینئرنگ، پروفیسر فرحت اللہ خاں انگریزی، پروفسیر قاضی محمد جمشید پولیٹیکل سائنس، پروفیسر مختار حسین معالجات، ڈاکٹر فرقان سنبھلی اردو، پروفیسر عرفان میوزیولوجی، ڈاکٹر عزیز سلیم میوزیولوجی، پروفسیر نبی احمد ایجوکیشن، پروفسیر نجم الحق ایجوکیشن، پروفسیر اقبال انصاری فزکس، پروفیسر اقبال علی پولی ٹیکنک، پروفسیر سعید الزماں پولی ٹیکنک، ڈاکٹراحسان اللہ فہد تھیالوجی، پروفیسر زبیر احمد میتھس، پروفسیر مولیٰ بخش انصاری اردو، پروفیسر ہمایوں مراد زولوجی، پروفیسر جمشید صدیقی کمپیوٹر سائنس، پروفیسر ایس ایم رضوان انگریزی، پرو فیسر وکیل جعفری فزکس اور پروفسیر مسعود عالم اردو۔

اسی دوران برصغیر ہند و پاک کے معروف نقاد، ادیب اور ڈراما نگار پروفیسر شمیم حنفی بھی چھ مئی 2021 کی شب میں داغ مفارقت دے گئے۔ چند روز قبل ان کا کرونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ وہ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں استاد رہے۔ جامعہ ملیہ کے شعبہ اردو نے انھیں پروفیسر ایمریٹس مقرر کر رکھا تھا۔ وہ تاحیات اس منصب پر رہے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز اینڈ لینگوئجز بھی رہے۔ وہ اردو کے اہم ادارے ”ریختہ“ اور ”جشن ادب“ کے سرپرست تھے۔ اس کے علاوہ وہ 2010 سے غالب اکیڈمی، نئی دہلی کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انھیں 2010 میں مسلم یونیورسٹی کے اعلیٰ فیصلہ ساز ادارے ”یونیورسٹی کورٹ“ کا رکن نامزد کیا گیا تھا۔ شمیم حنفی 17 مئی 1938 کو اترپردیش کے سلطانپور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1967 میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے، 1972 میںپی ایچ ڈی اور 1976 میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈی لٹ کیا۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی مقبول تصانیف میں ”جدیدیت کی فلسفیانہ اساس“ اور ”نئی شعری روایت“ قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی انگریزی کتاب ”انڈی ونز فریڈم“ کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ جبکہ ان کی دیگر کتابوں میں تاریخ تہذیب اور تخلیقی تجربہ، اردو کلچر اور تقسیم کی روایت، خیال کی مسافت، قاری سے مکالمہ، منٹو: حقیقت سے افسانے تک، غالب کی تخلیقی حسیت، آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ اور غزل کا نیا منظر نامہ قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی کتابیں لکھیں اور متعدد کتب کے ترجمے بھی کیے۔ انھیں ادبی دنیا میں بہت احترام کی نظر سے دیکھا جا تا تھا۔ وہ ادب پر تہذیبی تناظر میں گفتگو کرتے تھے۔ کسی بھی فن پارے کے جائزے کے وقت وہ تہذیبی تناظر کا حوالہ ضرور دیتے۔ وہ کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی ادبی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ ان کی یادداشت بہت غضب کی تھی۔ وہ یادداشت کے معاملے میں بھی اپنے ہمعصروں میں ممتاز تھے۔

اردو ادب کے علاوہ عالمی ادب پر بھی ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ ہندی، انگریزی، فرانسیسی اور یہاں تک کہ سنسکرت ادب پر بھی ان کی نگاہ تھی۔ جنوب کے ادب پر بھی ان کی نظر تھی۔ شمیم حنفی کو فنون لطیفہ سے بھی بڑی دلچسپی تھی۔ وہ ادیب، نقاد اور ڈراما نگار کے علاوہ شاعر اور مصور بھی تھے۔ ان کا انداز تخاطب بہت دلچسپ تھا اور گفتگو اور تقریر میں انگریزی ادبا و شعرا کے خوب حوالے دیتے تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب ”جدیدیت کی فلسفیانہ اساس“ میں پہلی بار مغربی ادب میں رائج اصطلاحات کو اردو اصطلاحات میں تبدیل کرکے پیش کیا۔جس سے بعد کے لکھنے والوں کو بہت رہنمائی ملی۔ یہ ان کے ڈی لٹ کا موضوع تھا جو دو حصوں میں شائع ہوا تھا۔مسلم یونیورسٹی میں خلیل الرحمن اعظمی کی صحبت نے ان کے تنقیدی شعور کو جلا بخشی۔ الہ آباد میں پروفیسر احتشام حسین نے بھی ان کی ذہن سازی کی تھی۔ الہ آباد میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ فراق گورکھپوری کے رابطے میں آئے۔ انھوں نے حسن عسکری اور پروفیسر عتیق اللہ کے ساتھ فراق گورکھپوری کے دفاع میں بہت کچھ لکھا۔ شمیم حنفی کثیر المطالعہ تھے۔

پاکستان کے ادیبو ںاور شاعروں سے بھی ان کے بڑے گہرے روابط رہے۔ انھوں نے پاکستانی ادیبو ںپر بھی خوب لکھا تھا۔ اس لیے پاکستان میں بھی ان کے مداحوں کی تعداد کافی ہے۔ انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کو برصغیر میں ایک نئی شناخت دی اور وقار عطا کیا۔ اس سلسلے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی بھی خدمات رہی ہیں۔ آج جامعہ کے شعبہ اردو کو جو مقام حاصل ہے اس کا سہرا شمیم حنفی کے سر جاتا ہے۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے بہت اہم ڈرامے لکھے جن کے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان کے کچھ ڈراموں کو اسٹیج بھی کیا گیا اور ان کے کئی ڈرامے نصاب میں شامل ہیں۔ان کے ڈراموں میں ہمارا سماج، ہمارا ادب اور عوام صاف طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے ریڈیو کی تکنیک کے حوالے سے بھی بہت اچھے ڈرامے لکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ شمیم حنفی عہد حاضر کے اہم نقادوں میں تھے۔ وہ ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی نظر کلاسیکی ادب اور جدید ادب پر یکساں تھی۔ ادب میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ شمیم حنفی صرف اردو ادب سے ہی نہیں بلکہ اردو تہذیب سے بھی جڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے غیر اردو داں طبقے میں اردو کو پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ تراجم کے اعتبار سے بھی ان کی بہت خدمات ہیں۔انھوں نے جامعہ ملیہ کے رسالہ ”جامعہ“ کے مدیر کی حیثیت سے جو ادبی صحافتی خدمات انجام دیں وہ غیر معمولی ہیں۔ انھوں نے اردو نسلوں کی ایک بڑی تعداد کی ذہنی و شخصی تربیت کی۔ ان کی کتاب ”غالب کی تخلیقی حسیت‘ ‘ ہندوستان اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوئی۔ ان کا تعلق ہندی اداروں سے بھی رہا ہے۔ مثال کے طور پر گیان پیٹھ، وانی پرکاشن، رضا فاونڈیشن اور راج کمل پرکاشن شمیم حنفی کے مشوروں کو کافی اہمیت دیتے تھے۔ ہندوستان کے علاوہ پاکستان کی متعدد ادبی شخصیات نے بھی شمیم حنفی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ کے مطابق شمیم حنفی اپنے کام اور ادبی فضیلت کے ذریعے ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہیں گے۔
sanjumdelhi@gmail.com