German President extends Eid greetings to Muslims

برلن: (اے یو ایس)جرمن صدر اشٹائن مائر نے عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں ملکی مسلم آبادی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شکر گزار ہیں کہ مسلمان مسلسل دوسرے برس یہ تہوار کورونا کے باعث عائد پابندیوں کا احترام کرتے ہوئے منارہے ہیں۔جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جرمنی میں مسلم برادری کے نام اپنے اس پیغام میں کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ مسلمان یہ اہم اسلامی تہوار مسلسل دوسرے سال بھی کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے ماحول میں منارہے ہیں۔سعیدہ وارثی (سامنے) برطانوی کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ یہ2010سے2012 تک کنزرویٹو پارٹی کی شریک چیئرپرسن بھی تھیں۔ 2018میں وارثی نے وزیر اعظم ٹریزا مے سے مطالبہ کیا کہ وہ عوامی سطح پر قبول کریں کہ ان کی پارٹی کو اسلاموفوبیا کے مسائل کا سامنا ہے۔

ڈاؤننگ سٹریٹ میں ان کی پہلی میٹنگ کے دوران ان کے روایتی پاکستانی لباس کو بھی وجہ بحث بنایا گیا تھا۔مغربی دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد فرانس میں آباد ہے اور اسلام اس ملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا سیاست میں کردار بہت ہی محدود ہے۔ رشیدہ داتی فرانسیسی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی چند مسلم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ 2007 سے2009 تک وزیر انصاف بھی رہیں۔ اس وقت وہ یورپی پارلیمان کی رکن ہیں۔ڈچ سیاستدان جورم وان کلیویرین اسلام کے سخت ناقد تھے۔ انہوں نے اسلام کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی۔ لیکن حال ہی میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک اسلام مخالف کتاب لکھنے کے دوران مسلمان ہو گئے تھے۔

ہالینڈ کے اسلام مخالف اور بہت متنازعہ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز نے اپنے اس دیرینہ ساتھی کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کا اسلام قبول کرنا ایسے ہی ہے، جیسے ایک سبزی خور کو مذبحہ خانے میں ملازمت دے دی جائے۔احمد ابو طالب سن دو ہزار نو میں ڈچ شہر روٹرڈیم کے میئر بنے تھے۔ وہ ہالینڈ کے اولین تارک وطن میئر تھے۔ ابو طالب ان مسلمانوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو رہائش کے لیے تو مغرب کا انتخاب کرتے ہیں لیکن آزادی اظہار کے مخالف ہیں۔ نیوز ایجنسی اے این پی کے ایک سروے کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں وہ ہالینڈ کے سب سے مقبول سیاستدان قرار پائے تھے۔صادق خان سن دو ہزار سولہ سے لندن کے میئر ہیں۔ وہ 2005سے2016لہ تک لیبر پارٹی کی طرف سے رکن پارلیمان بھی رہے۔ بریگزٹ مہم میں ان کا موقف یہ تھا کہ یورپی یونین میں ہی رہا جائے۔ انہیں سن دو ہزار سولہ میں سال کا بہترین سیاستدان قرار دیتے ہوئے برٹش مسلم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ ایک باعمل مسلمان ہیں اور باقاعدگی سے مسجد بھی جاتے ہیں۔تاہم صدر نے کہا کہ وہ اس سال بھی اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ معمول کے مطابق سماجی اور خاندانی اجتماعات کی صورت میں عید الفطر نا منا سکنے والے مسلمانوں کے ذریعہ کورونا پروٹوکول کا احترام کرنے پر دل سے ان کے شکر گزار ہیں۔

ساتھ ہی صدر اشٹائن مائر نے یہ بھی کہا کہ کورونا کی وبا پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں اور مستقبل میں حالات میں واضح بہتری کی قوی امید ہے۔جرمن صدر نے کہا کہ ملک میں عام شہریوں کو کورونا ویکسین لگانے کی مہم تیزی سے جاری ہے اور اس کے نتائج اتنے امید افزا ہیں کہ جیسے مشکل حالات میں کسی طویل اور تاریک سرنگ کے اختتام پر دیکھنے والوں کو دور سے ہی روشنی نظر آنے لگی ہو۔دنیا کے کئی ممالک کی طرح جرمنی میں بھی رمضان کے اسلامی مہینے کے اختتام پر عید الفطر کا مذہبی تہوار جمعرات13 مئی کو منایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کورونا کی وبا کی وجہ سے جرمنی میں بڑے بڑے عوامی گروپوں کی شکل میں عام شہریوں کے ایک دوسرے سے میل جول پر گزشتہ برس مارچ سے پابندی عائد ہے۔

یوں جرمنی میں مسلمانوں کے لیے یہ مسلسل دوسرا سال ہو گا کہ وہ عید الفطر کا تہوار ان پابندیوں کا احترام کرتے ہوئے اور اپنے گھروں میں صرف اہل خانہ کے ساتھ ہی منائیں گے۔عید الفطر سے ایک روز قبل جرمن سربراہ مملکت اشٹائن مائر نے بدھ بارہ مئی کو اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ”عید کا تہوار ہر کسی کے لیے ایک ایسا خیر مقدمی موقع ہوتا ہے، جو مسلمان اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ مناتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عید کے موقع پر بھی مسلسل دوسری بار یہ تہوار بڑے گروپوں کی صورت میں مل کر منانا ممکن نہیں ہو گا۔“