سہیل انجم
اس وقت پورے ملک میں کرونا ویکسین لگوانے کے سلسلے میں ماراماری چل رہی ہے۔ یعنی ہر شخص چاہ رہا ہے کہ وہ جلد از جلد ویکسی نیٹڈ ہو جائے یعنی اسے جلد از جلد ویکسین لگ جائے۔ ویکسی نیشن کے مراکز پر زبردست رش ہو رہا ہے اور لوگوں کا دو دو تین تین گھنٹوں کے بعد نمبر آرہا ہے۔ 16 جنوری کو ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز ہوا تھا اور اب تک 16کروڑ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ملک میں ویکسین کی قلت پیدا ہو گئی ہے جس کی وجہ سے بہت سے مقامات پر ویکسی نیشن مراکز بند ہو گئے ہیں۔ حالانکہ جب ویکسی نیشن کے عمل کا آغاز ہوا تھا تو لوگوں میں کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ کوئی جوش خروش نہیں تھا۔ لوگوں میں لاپروائی تھی اور بہت سے لوگ یہ کہتے رہے کہ ٹھیک ہے جی! لگوا لیں گے۔ کہاں ہم بھاگے جا رہے ہیں اور کہاں ویکسین بھاگی جا رہی ہے۔ اس وقت کرونا کا قہر کمزور ہو چکا تھا اور شرح اموات بہت زیادہ گر گئی تھی۔ کرونا کے مریض بھی بہت کم ہو گئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ بس اب کرونا ختم ہو گیا۔ اب کیا ہے اب تو ہندوستان نے کرونا کو شکست فاش دے دی ہے۔ حالانکہ اس وقت بھی کچھ ماہرین یہ اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ کرونا کی دوسری لہر آنے والی ہے۔ لیکن اس اندیشے پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ نہ عوام نے اور نہ ہی حکومت نے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بالکل درست کہا ہے کہ عوام نے بھی لاپروائی برتی اور حکومت نے بھی۔ ہندوستان کی حکومت نے حالات میں بہتری اور ویکسین کی بھرپور پیداوار کے پیش نظر دوسرے ملکوں کو ویکسین کی سپلائی شروع کر دی۔ بتا دیں کہ ہندوستان ویکسین بنانے والا دنیا کا نمبر ون ملک ہے اور یہاں ویکسین بنانے کا سب سے بڑا ادارہ سیرم انسٹی ٹیوٹ پونہ ہے۔ ہندوستان اب تک 85 سے زائد ملکوں کو ساڑھے چھ کروڑ سے زائد ویکسین کی خوراکیں سپلائی کر چکا ہے۔لیکن اچانک مارچ میں کرونا کے کیسیز میں اضافہ شروع ہو گیا اور وہ اضافہ اتنا تیز تھا کہ چند ہی ہفتوں کے اندر ایک بار پھر پورا ملک اس کی شدید گرفت میں آگیا۔ اسی دوران کچھ ایسے واقعات ہوئے جو کرونا کیسیز میں اضافے کا سبب بنے۔
یہ جو دوسری لہر آئی اتنی شدید اور بھیانک تھی کہ اس نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ پہلی لہر کے دوران ہندوستان میں ایک روز میں زیادہ سے زیادہ 98 ہزار یا ایک لاکھ کیسیز پائے گئے تھے اور مرنے والوں کی تعداد سیکڑو ںمیں ہوتی تھی۔ لیکن اس دوسری لہر میں یومیہ کیسیز چار لاکھ سے اوپر اور یومیہ اموات چار ہزار سے اوپر پہنچ گئی۔ کرونا شہروں سے نکل کر دیہی علاقوں میں پہنچ گیا اور گاو¿ں گاو¿ں میں لوگ کھانسی بخار اور سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے مرنے لگے۔ شہرو ںمیں بھی لوگ آکسیجن کی قلت کے سبب ہلاک ہونے لگے اور دیہی علاقوں میں بھی۔ اس کا ملک کے صحت نظام پر بہت برا اثر پڑا اور شمشانوں اور قبرستانوں میں آخری رسومات کے لیے جگہوں کی تنگی ہو گئی۔ پھر تو نوبت یہاں تک آگئی کہ دریاو¿ں میں لاشیں تیرنے لگیں۔ اس صورت حال نے عوام میں ایک خوف پیدا کر دیا اور ہر شخص ویکسین لگوانے کے لیے دوڑ پڑا۔ وہی لوگ جو ویکسین کے بارے میں سنی سنائی باتیں کرتے تھے سنجیدہ ہو گئے اور ویکسین لگوانے کے لیے پریشان ہونے لگے۔ لہٰذا ملک میں ویکسین کی قلت پیدا ہو گئی۔شروع شروع میں ویکسین کے بارے میں کئی قسم کی افواہیں اڑتی رہیں۔ مسلمانوں کے ایک حلقے میں اس کے جواز کی بحث چھڑ گئی تھی کہ ویکسین جائز ہے یا ناجائز اور یہ کہ ہمیں بتایا جائے کہ اس میں کون کون سی اجزا ملائی گئی ہیں۔ کچھ لوگوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اس میں خنزیر کے گوشت کی آمیزش ہے۔ طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ اس وقت ہم نے لکھا تھا کہ اسلام میں جان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ زندگی بچانے پر زور دیا گیا ہے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر تھوڑی سی مقدار میں حرام چیز کھانے سے بھی جان بچ سکتی ہے تو کھا سکتے ہیں۔ بہرحال رفتہ رفتہ حرام حلال کی بحث ختم ہو گئی۔ اس کے بعد عام لوگوں میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ ویکسین میں کچھ ہے بھی یا یہ محض پانی ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ویکسین لگوانا مفید ہے تو کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ کوئی فائدہ نہیں۔ بہت سے ڈاکٹروں نے اگر اس کی افادیت پر زور دیا اور کہا کہ ہر شخص کو ویکسین لگوا لینا چاہیے کیونکہ کرونا سے تحفظ کا یہ واحد علاج ہے تو کئی ڈاکٹروں نے کہنا شروع کر دیا کہ ویکسین میں کچھ نہیں ہے یہ تو پانی ہے اور ہم خود نہیں لگوائیں گے۔ لیکن اسی کے ساتھ نہ صرف ہندوستان کے سائنس داں بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں کے اعلیٰ سائنس داں بھی اور صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او سے وابستہ سائنس داں اور ڈاکٹر بھی اس بات پر زور دیتے رہے کہ ویکسین ہر شخص کو لگوانی چاہیے کیونکہ اسی سے کرونا سے بچاو¿ ہو سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ ہندوستان میں جو دو ویکسین لگائی جا رہی ہیں ایک آسترا زینیکا کی ”کووی شیلڈ“ جسے سیرم انسٹی ٹیوٹ نے بنایا ہے او رجو آکسفورڈ کی ویکسین ہے اور دوسری بھارت بائیو ٹیک سے اندرون ملک تیار کردہ ”کو ویکسین“ میں سے بہتر کون ہے۔ کسی نے کہا کہ کووی شیلڈ بہتر ہے تو کسی نے کہا کہ کوویکسین۔ اب تیسری ویکسین بھی آگئی ہے جو کہ روس نے تیار کی ہے اور جس کا نام ”اسپوتنک“ ہے۔ اسے غالباً بیس مئی سے لگایا جانے والا ہے۔ بیشتر ڈاکروں کا کہنا ہے کہ تینوں ویکسین بہتر ہیں اور وہ سب تقریباً یکساں ہیں۔ جس کو جو مل جائے وہ وہی لگوا لے۔ اس چکر میں نہ پڑے کہ کووی شیلڈلگوائے یا کوویکسین۔ اسی درمیان گورکھپور کے ڈاکٹر کفیل خان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں انھوں نے کئی سوالوں کے جواب دیے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ تینوں ویکسین تقریباً ایک جیسی ہیں ان میں بہت معمولی فرق ہے۔ جس کو جو ویکسین مل جائے وہ لگوا لے۔ البتہ اس سوال پر کہ کیا کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو نہیں لگونا چاہیے؟ انھوں نے کہا کہ صرف حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین نہ لگوائیں باقی سب عورتیں بھی لگوا سکتی ہیں اور مرد بھی۔ یہاں تک کہ ایڈز کے مریض بھی لگوا سکتے ہیں البتہ ان پر ویکسین کا اثر ذرا کم ہوگا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی کو کرونا ہو گیا ہے تو وہ کیا کرے؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ کرونا ہونے کے چار چھ ہفتے کے بعد وہ بھی لگوا سکتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کو کرونا ہو گیا ہے۔ ان کے ڈاکٹروں نے انھیں بتایا ہے کہ ٹھیک ہو جانے کے چار چھ ہفتوں کے بعد آپ بھی لگوا سکتے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ اگر کسی نے ویکسین کی ایک خوراک لگوا لی ہے اور اس کے بعد اسے کرونا ہو گیا تو وہ کیا کرے۔ اس کا بھی جواب یہی ہے کہ ٹھیک ہونے کے چار چھ ہفتے بعد دوسری خوراک لگوا لیں۔ ان تمام افواہوں، مباحثوں اور سوالوں نے دل و دماغ کو عجیب الجھن میں ڈال دیا کہ کیا کیا جائے۔ ویکسین لگوائی جائے یا نہیں۔ کیونکہ ایسے بھی کیسیز سامنے آئے کہ ویکسین کی دونوں خوراکیں لینے کے باوجود کچھ لوگوں کو بھی (ایسے لوگوں کی تعداد دس ہزار میں صرف دس ہے) کرونا ہو گیا۔ جب ویکسی نیشن کا آغاز ہوا تھا تو سب سے پہلے لگوانے والوں میں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) نئی دہلی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا بھی شامل تھے۔ لیکن بعد میں خبر آئی کہ دونوں خوراکیں لینے کے باوجود وہ کرونا کے شکار ہو گئے۔ اسی طرح این ڈی ٹی وی کے سائنسی مدیر پلو باگلا کو بھی دونوں خوراکیں لینے کے باوجود کرونا ہو گیا۔ اس صورت حال نے اور ڈرا دیا کہ جب دونوں خوراکیں لینے کے باوجود کرونا ہو رہا ہے تو پھر کیا فائدہ۔ لیکن پھر یہ حقیقت سامنے آئی کہ اگر دونوں خوراکیں لینے والے کو کرونا ہو جائے تو وہ اس پر زیادہ اثر نہیں ڈال سکے گا کیونکہ اس وقت تک جسم میں اینٹی باڈی بن چکی ہوگی۔ لہٰذا ڈاکٹر گلیریا بھی ٹھیک ہو گئے او رپلو باگلا بھی۔ بلکہ پلو باگلا نے بتایا کہ جب وہ ایک اسپتال میں داخل ہوئے اور ان کا ٹیسٹ وغیرہ کیا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ بغیر ویکسین والے مریض کو زیادہ انفکشن ہوا بہ نسبت ان کے۔ ان کے ڈاکٹر نے ان کی ایکس رے رپورٹ اور بغیر ویکسین والے مریض کی رپورٹ دکھائی تو اندازہ ہوا کہ بغیر ویکسین والے مریض کو کہیں زیادہ انفکشن ہوا اور ان کے ڈاکٹر نے کہا کہ اگر آپ نے دونوں خوراکیں نہ لی ہوتیں تو آج آپ بھی وینٹی لیٹر پر ہوتے۔
اس طرح یہ ثابت ہوا کہ اگر ویکسین لینے کے باوجود کرونا ہو جائے تو وہ زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ہمارے ایک دوست نے اپنی اہلیہ کے ساتھ دونوں خوراکیں لے لیں لیکن ان کی اہلیہ کو کرونا ہو گیا۔ اس پر ان کے ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں اور بہت زیادہ دوا کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ہر حال میں محفوظ ہیں۔ گویا ویکسین لگوانے والا نہ لگوانے والے کے مقابلے میں زیادہ محفوظ حالت میں ہے۔ہم نے بھی رمضان المبارک کے مقدس مہینے سے قبل یہ سوچا تھا کہ ویکسین لگوا لیتے ہیں۔ لیکن ان افواہوں، شکوک و شبہات اور سوالات نے دل اور دماغ کے درمیان ایک کشاکش جاری کر دی۔ دماغ کہتا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو ویکسین لگوانی چاہیے اور دل کہتا تھا کہ ان حالات میں کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن جب اس پوری بحث کو نچوڑا گیا تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بہرحال ویکسین لگوانا ہی اچھا ہے۔ اسی درمیان کئی غیر ممالک میں ہمارے کئی دوستوں نے بھی بتایا کہ انھوں نے بھی ویکسین لگوا لی ہے۔ ایک روز ہمارے آفس وائس آف امریکہ کے ایک سینئر براڈ کاسٹر جناب قمر عباس جعفری نے فون کرکے پوچھا کہ سہیل انجم آپ نے ویکسین لگوا لی؟ تو ہم نے کہا کہ ابھی نہیں۔ اس پر انھوں نے اظہا رحیرت کرتے ہوئے کہا کہ ارے ابھی تک کیوں نہیں لگوائی جلد از جلد ویکسین لگوائیں۔ خود ہندوستان کے کئی دوستوں نے کہا کہ انھوں نے خود بھی لگوائی ہے اور اپنے اہل خانہ کو بھی لگوائی ہے۔ لہٰذا دل اور دماغ کے درمیان جاری کشمکش ختم ہو گئی اور ہم نے طے کر لیا کہ رمضان کے فوراً بعد ویکسین کی پہلی خوراک لے لینی ہے۔اب تو 45 سال سے اوپر کے لوگوں کو بغیر رجسٹریشن کے بھی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ لہٰذا ہم نے بیٹے سے کہا کہ ہمیں بھی ویکسین لگوانی ہے۔ چونکہ وہ سرکاری ٹیچنگ جاب میں ہیں لہٰذا ایک ویکسی نیشن سینٹر پر ان کی بھی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔ لیکن اس سینٹر پر ویکسین ختم ہو جانے کی وجہ سے فی الحال اسے بند کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک ساتھی سے بات کی اور اس نے کہا کہ کل والدین کو لے آئیے۔
لہٰذا ہم لوگ 16 مئی بروز اتوار ای ایس آئی اسپتال مودی مل،نئی دہلی پہنچ گئے۔ جانے سے پہلے انھوں نے اپنے ساتھی سے بات کی تو انھوں نے شناختی کارڈ وغیرہ کی تفصیلات واٹس ایپ پر معلوم کر لیں اور جیسے ہی ہم ساڑھے دس بجے صبح پہنچے اس نے کوپن کے ساتھ نرس کے پاس پہنچا دیا۔ اس نے فوری طور پر ہم دونوں کو یعنی ہمیں اور ہماری اہلیہ کو ویکسین کی پہلی خوراک لگا دی۔ وہاں ایک سرٹی فکٹ ملا جس میں درج تھا کہ 28 روز کے بعد آکر دوسری خوراک لگوا لیں۔ موبائیل پر بھی سرٹی فکیٹ آجاتا ہے۔ جانے سے پہلے ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ اس مرکز پر کووی شیلڈ لگ رہی ہے لیکن وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ نہیں کوویکسین لگ رہی ہے۔ وہاں ایک ملازم نے جب زبانی طور پر بھی بتایا کہ 28 روز کے بعد دوسری خوراک لگے گی تو ہم نے اس سے پوچھا کہ حکومت نے تو دونوں خوراکوں کے بیچ کا دورانیہ آٹھ سے بارہ ہفتے تک بڑھا دیا ہے تو اس نے کہا کہ کووی شیلڈ کا بڑھا ہے کوویکسین کا نہیں۔ اس طرح ہم نے بھی صحت سے متعلق ایک اہم فریضہ انجام دے دیا جو ابھی نصف ہے، نصف دوسری خوراک کے ساتھ پورا ہوگا۔ ویکسین لگوانے کے بعد جس شخص کو بھی پتہ چلا اس نے مبارکباد دی اور بیشتر نے کہا کہ انھوں نے بھی ویکسین لگوا لی ہے۔ بعض نے کچھ اپنے خدشات بھی دور کرنے کی کوشش کی۔ بہرحال ہم اپنے ذاتی تجربے سے بتا سکتے ہیں کہ ویکسین لگوانے کے بعد آدمی کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے اور دل و دماغ دونوں یہ کہتے ہیں کہ اب تم کرونا سے محفوظ ہو جاو¿ گے۔ دیکھا گیا ہے کہ اسپتالوں میں داخل کرونا کے مریض بے بسی،بے چارگی اور لاچاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ہمت اور حوصلہ ہار جاتے ہیں۔ ان کی یہ حوصلہ شکنی انھیں موت کے دروازے پر پہنچا دیتی ہے۔ لہٰذا کرونا کے مرض میں حوصلہ مندی اور خود اعتمادی کی بڑی اہمیت ہے۔ خود کو حوصلہ مند رکھیں اور مثبت انداز فکر اپنائیں۔ منفی سوچ سے بچیں۔ اور جہاں تک ممکن ہو جلد از جلد ویکسین لگوا لیں۔ ان شاءاللہ اس وبا سے محفوظ ہو جائیں گے۔ تقدیر میں جو لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا لیکن انسان کو اپنے طور پر حفاظتی اقدامات تو کرنے ہی چاہئیں۔
sanjumdelhi@gmail.com
