Ami Ayalon criticises Israeli government

یروشلم:(اے یو ایس)اسرائیل میں امن عامہ کے ادارے (شاباک) کے سابق سربراہ عامی ایالون نے اسرائیلی حکومت پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ ایالون کے مطابق حکومت اس مفروضے کے ساتھ رہ رہی تھی کہ وہ طاقت کے زور پر ہر چیز حاصل کر سکتی ہے تاہم ایک ہفتے کے اندر تمام مفروضے ہوا ہو گئے۔عامی ایالون اسرائیلی بحریہ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن اور سابق وزیر بھی تھے۔ ایالون کے مطابق اسرائیلی حکومت غلط پالیسیوں کی قیمت چکا رہی ہے جو اس نے گذشتہ 15 برس کے عرصے میں اپنائیں۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں حماس تنظیم مضبوط ہو گئی۔

اسرائیلی سابق اعلی عہدے دار کا یہ موقف العربیہ نیوز چینل کے پروگرام ‘البعد الاخر’ (دوسرا زاویہ) میں سامنے آیا جس کی میزبان منتہی الرمحی ہیں۔ یہ پروگرام ہر ہفتے کے روز گرینچ کے وقت کے مطابق رات 8:30 پر نشر ہوتا ہے۔عامی ایالون کہا کہنا ہے کہ “اسرائیلی حکومت گرین لائن کے اندر اور اسرائیلی شہروں میں عرب شہریوں اور یہودیوں کے درمیان جھڑپوں سے حیران ہو گئی۔ تاہم مجھے اس کی توقع تھی اور جب میں شاباک کا سربراہ تھا تو میں نے اس سے خبردار بھی کیا تھا۔ میں نے اسرائیل میں عرب دیہاتوں اور علاقوں میں بسنے والے اسرائیلی عرب شہریوں کے حالات زندگی کے متعلق رپورٹیں بھی پیش کی تھیں۔ یہ اسرائیلی عرب شہری مساوات کے حوالے سے اپنے قانونی حقوق کی خاطر لڑ رہے ہیں ، انہیں اس کا پورا حق حاصل ہے”۔

اسرائیلی پارلیمنٹ کے سابق رکن محمد برکہ کا کہنا ہے کہ داخلی عربوں (فلسطینیوں) کو اسرائیلی ریاست میں تیسرے درجے کے شہریوں کے برتاو¿ کا سامنا ہے۔ انہیں کسی طور بھی یہودی شہریوں کے مساوی حقوق کا حامل شمار نہیں کیا جا سکتا۔ جولائی 2018ئ میں یہودی ریاست کی جانب سے جاری قانون نے تمام فلسطینیوں کو ریاست کی چھتری سے باہر کر دیا اور اسرائیل کے اندر نسلی علاحدگی کی سوچ کو مضبوط بنایا۔ محمد برکہ کے مطابق دائیں بازو کی شدت پسند جماعتیں یہ خواب دیکھ رہی ہیں کہ وہ اسرائیل کے اندر عرب شہریوں کی جبری ہجرت کی کارروائیوں کی قیادت کریں گی تاہم ان کا یہ خواب ہر گز پورا نہ ہو گا۔