سہیل انجم
کرونا اپنے ساتھ ایک اور مرض لے کر آیا ہے اور وہ بھی کم خطرناک نہیں ہے۔ بلکہ بعض معاملات میں تو یہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ عموماً اس مرض میں بچنے کے پچاس فیصد امکانات ہوتے ہیں لیکن اگر مرض زیادہ بڑھ گیا ہے تو پھر بچنے کے صرف دو فیصد امکانات ہی رہتے ہیں۔ اس مرض کا نام ا س سے پہلے لوگوں نے نہیں سنا تھا۔ لیکن اب یہ نام عام ہو گیا ہے اور یہ نام ہے ”بلیک فنگس“۔ فنگس پھپھوندی کو کہتے ہیں۔ قارئین نے عام طور پر دیکھا ہوگا کہ کھانے پینے کی بعض اشیا اگر کچھ دنوں تک یوں ہی کھلے میں چھوڑ دی جائیں تو خاص طور پر برسات کے موسم میں ان میں سفید یا سیاہ پھپھوند لگ جاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں اس پھپھوندی کو صاف کرکے لوگ کھانے پینے کی اشیا استعمال کر لیتے ہیں۔ لیکن اب اندازہ ہوا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات صحت کے لیے نقصاندہ ہو سکتی ہے۔تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ بلیک فنگس آجکل سرخیوں میں کیوں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مرض کرونا سے ٹھیک ہو جانے والے افراد میں پایا جانے لگا ہے۔ اس کی جو سب سے بڑی وجہ بتائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کرونا کے علاج میں اسٹیرائڈ دی جاتی ہے۔ یہ ایسی دوا ہے جو مریض کی قوت مدافعت کو بری طرح کمزور کر دیتی ہے یا گھٹا دیتی ہے۔ اس بیماری میں آنکھوں کے چاروں طرف سرخی چھا جاتی ہے یا سیاہی پڑ جاتی ہے۔ آنکھوں میں سوجن بھی آجاتی ہے۔ یہ مرض اتنا خطرناک ہو جاتا ہے کہ مریض کو بچانے کے لیے بعض اوقات اس کی آنکھیں نکالنی پڑ جاتی ہیں۔ کچھ مریضوں کے تو جبڑے تک نکالنے پڑے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو مریض کے بچنے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ اس مرض کی ایک دوسری وجہ اسپتالوں میں صفائی کا نہ ہونا ہے۔
خاص طور پر وینٹی لیٹر اور آکسیجن والے مریض اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آکسیجن دیتے وقت جو پانی استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی اس کا ایک سبب ہے۔ کیونکہ لوگوں کو نہیں معلوم کہ اس میں صرف ڈسٹلڈ واٹر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے عام پانی نہیں۔ اس کے علاوہ وینٹی لیٹر کی بھی مناسب طریقے سے صفائی ہونی چاہیے۔ اس کی ایک تیسری وجہ ماسک ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص ایک ہی ماسک بار بار استعمال کرتا ہے تو اس میں سانسوں کی وجہ سے نمی آجاتی ہے اور وہ نمی پھر بلیک فنگس کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ این 95 یا سرجیکل ماسک کا استعمال صرف ایک بار کیا جانا چاہیے بار بار نہیں۔ البتہ کپڑے کا ماسک ایک بار استعمال کرنے کے بعد اسے اچھی طرح دھو لیا جائے اور پھر اسے تیز دھوپ میں سکھا لیا جائے یا پھر خوب گرم پریس سے استری کر دیا جائے تو اس سے فنگس نہیں ہوگا۔حکومت کے ادارے ”انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ“ (آئی سی ایم آر) نے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹر جو کرونا، ذیابیطس یا مدافعتی نظام کے کمزور پڑ جانے والے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں وہ بلیک فنگس کی ابتدائی علامات جیسے کہ ”سائنس“ میں درد یا ناک کے ایک طرف کے بند ہو جانے، نصف سر میں درد، چہرے پر سوجن یا سُن ہو جانے یا دانتوں میں درد پر نظر رکھیں۔ بڑی تعداد میں ایسے افراد بلیک فنگس کا شکار ہو رہے ہیں جو کرونا سے صحت یاب ہو چکے تھے۔ اس بیماری کی وجہ سے لوگوں کی بینائی ختم ہو جاتی ہے اور دیگر سنگین طبی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی ہیں جس کے سبب ان کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق آنکھوں میں سوجن اور ناک میں سیاہ پھپھوند جیسی ابتدائی علامتیں دکھائی دینے کے بعد متاثرہ شخص کی فوراً بایوپسی کرانی چاہیے اور علاج شروع کر دینا چاہیے۔ بخار، کھانسی، سر درد، سانس لینے میں پریشانی، خون کی قے، دانتوں میں درد، سینے میں تکلیف بھی بلیک فنگس کی ابتدائی علامتیں ہیں۔
گجرات، مہاراشٹر، بنگلور، حیدرآباد، پونے اور دہلی میں بلیک فنگس کے سیکڑوں متاثرین کا علاج چل رہا ہے اور ان میں متعدد افراد کی جان بچانے کے لیے ان کی آنکھ نکال دی گئی۔ جبکہ بعض لوگوں کے جبڑوں کا علاج بھی کرنا پڑا۔ حالانکہ یہ کوئی متعدی بیماری نہیں ہے لیکن ہے خطرناک۔ یہ ان لوگوں میں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔دہلی کے ”آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز“ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم سی شرما کے مطابق کرونا سے صحت یاب ہونے والے افراد پر بلیک فنگس کا حملہ اس لیے زیادہ ہو رہا ہے کیوں کہ کرونا کے مریضوں کو انتہائی نگہداشت والے یونٹ (آئی سی یو) میں طویل عرصے تک علاج کے دوران اینٹی فنگل دوائیں دی جاتی ہیں جس سے ان کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔ تاہم ڈاکٹر شرما کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ گھر پر رہ کر کرونا کا علاج کرا کر صحت یاب ہوئے ہیںان میں اس بیماری کے خطرات کم ہیں اور اگر ایسا کوئی کیس سامنے آئے تو ڈاکٹروں سے رجوع کرنا چاہیے۔ ڈاکٹروں کے مطابق کرونا کے علاج کے دوران اسٹیرائیڈ کے استعمال اور مریضوں میں ذیابیطس کی شکایت بھی بلیک فنگس کا شکار ہونے کی ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اب تک بلیک فنگس کے تقریباً نو ہزار کیسیز رپورٹ ہوئے ہیں۔آئی سی ایم آر کی ایک سائنس داں اپرنا مکھرجی کے مطابق یہ کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے البتہ اس کے بارے میں معلومات ہونی چاہئیں اور اگر علامات دکھائی دیں تو ڈاکٹروں سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ ”سینٹر آف ایڈوانس ریسرچ ان میڈیکل مائیکولوجی“ چنڈی گڑھ کے سربراہ ارونالوک چکرورتی کے مطابق کرونا سے پہلے بھی ہندوستان اور دیگر ممالک میں یہ بیماری موجود تھی۔ اس کی ایک وجہ لاکھوں افراد کا ذیابیطس کا مریض ہونا ہے۔
ممبئی کے ڈاکٹر پی سریش کے مطابق ان کے اسپتال میں گزشتہ دو ہفتوں میں ایسے دس مریضوں کا علاج کیا گیا۔ جب کہ کرونا وبا کی آمد سے قبل ایک سال میں بلیک فنگس کے پانچ مریضوں کا علاج کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جن دس مریضوں کا علاج کیا گیا ان میں سے بعض کو ذیابیطس تھا یا وہ ایسی دوائیں لے رہے تھے جن سے قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ ان میں سے بعض کی موت واقع ہو گئی اور بعض کی بینائی چلی گئی۔ جبکہ ممبئی ہی کے ایک اور ڈاکٹر نشانت کمار کہتے ہیں کہ پہلے ان کے پاس سال میں ایسا کوئی ایک مریض آتا تھا مگر اب ہفتے میں ایک آ رہا ہے۔ کالرا ہاسپٹل نئی دہلی کے ڈاکٹر نونیت کالرا کے مطابق کرونا کے علاج کے دوران جو دوائیں دی جاتی ہیں ان کی وجہ سے بھی یہ ہوتا ہے۔ ملک کے معروف ماہر امراض چشم ڈاکٹر الطاف اکبر کا کہنا ہے کہ بلیک فنگس کا حملہ ہر مریض پر نہیں ہوتا۔ یہ ان لوگوں پر ہوتا ہے جن کی قوت مدافعت اسٹیرائڈ لینے سے کم ہو جاتی ہے۔ کرونا مریضوں کو صحت یاب ہو جانے کے بعد بھی ماسک لگانا ضروری ہے۔ انھیں صفائی ستھرائی پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ وہ یا تو دستانے پہنے رہیں یا پھر بار بار ہاتھ دھوتے رہیں۔ ایسے لوگوں کو گرد و غبار اور دھول مٹی والے مقامات پر جانے سے بچنا چاہیے۔ کرونا سے ٹھیک ہونے کے کم از کم پندرہ بیس دنوں تک یہ احتیاط ضروری ہے۔ یہ متعدی تو نہیں ہے لیکن ایک خطرناک بیماری ہے۔ اگر کسی مریض کا صرف ”سائنس“ متاثر ہوا ہے تو اس کی جان جانے کے پچاس فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ اگر پھیپھڑا متاثر ہوا ہے تو جان جانے کے 75 فیصد امکانات ہوتے ہیں اور اگر پورا جسم متاثر ہو گیا ہے تو ایسے مریضوں کے بچنے کے دو ہی فیصد امکانات ہوتے ہیں۔
لہٰذا کرونا کے صحت یاب مریضوں کو بہت زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ احتیاط نہیں کریں گے تو وہ اس خطرناک بیماری کے شکار ہو سکتے ہیں۔ انھیں ڈاکٹروں کے مشوروں پر عمل کرنا چاہیے اور اگر بلیک فنگس کی مذکورہ علامتوں میں سے کوئی بھی علامت نظر آئے تو انھیں فوری طور پر ڈاکٹروں سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ انھیں اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ صحت یاب مریضوں کے علاوہ عام لوگوں کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ماسک کے سلسلے میں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ایک ہی ماسک کئی کئی دنوں تک لگائے رکھتے ہیں۔ انھیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ کپڑے کے ماسک کا بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس کو بھی دوبارہ استعمال کرنے سے قبل خوب اچھی طرح دھونے اور دھوپ میں سکھانے یا خوب گرم پریس سے استری کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ڈاکٹروں کے مشوروں پر عمل کریں تو اس بیماری سے بچ سکتے ہیں۔ ورنہ ابھی تو بلیک فنگس کے تقریباً نو ہزار کیس سامنے آئے ہیں اگر احتیاط نہیں برتی گئی تو یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جو ہمارے صحت نظام کے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com±
